معاہدہ طائف کے ’گاڈ فادر‘ حسین الحسینی کا سانحہ ارتحال

محمد الیحییٰ
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

آئین کی بالا دستی، قومی وقار اور امن کی ہمیشہ زندہ رہنے والی آواز بن کر جیے۔

سالہا سال سے لبنان کے سیاسی منظر نامے پر ایسے چند ہی لوگ ابھرے ہیں جنہیں مدبر اور بڑی شخصیات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ معمول کے سیاست کاروں اور نام نہاد سیاسی اشرافیہ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اصلاح اور بہتری سے ماورا لوگ ہیں۔

Advertisement

تاہم حسین الحسینی حقیقتاً ایک باوقار شخصیت کے طور پر زندگی گذارنے اور کردار ادا کرنے کی مثال بنے رہے اس لیے انہیں لبنان کی تاریخ میں مدبر اور عظیم شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ لبنان کی پارلیمنٹ کے سابق سپیکر تھے۔ صدر حسین الحسینی ۔ ’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے' ۔

حسین الحسینی اب ہم میں نہیں رہے ہیں۔ جمعرات کی صبح 86 سال کی عمر میں اس عالم فانی سے رخصت ہو گئے۔

حسین الحسینی سعودی فرمانروا شاہ فھد سے مصافحہ کر رہے ہیں: فائل فوٹو
حسین الحسینی سعودی فرمانروا شاہ فھد سے مصافحہ کر رہے ہیں: فائل فوٹو

اس میں شبہ نہیں کہ لبنان کے سماج اور سیاست میں کئی واضح فرق اور اسالیب موجود تھے۔ جن میں باہمی ٹکراؤ کا پہلو بھی نمایاں تھا۔ لیکن حسین الحسینی نے اس سے الگ اتحاد اور یکجہتی کی راہ اختیار کی۔ ان کا اسلوب 'چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو' کے فلسفے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔

اس لیے وہ دم رخصت اہل لبنان کے لیے یہی ورثہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ وہ تفریق اور تقسیم کے عمل سے قوم وملک کو کمزور کرنے کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کی اپروچ قوم کو جمع اور ضرب کے ذریعے ایک مضبوط قوت بنانے کی تھی۔ 1975 سے 1990 تک کے خانہ جنگی دور کے بعد وہ قوم کو اسی راستے پر لانے کی سوچ اور کدوکاش میں مصروف رہے۔

اس میدان میں محض ایک پیروکار کے طور پر نہیں بلکہ صف اول کے قائد کی طرح نمایاں رہے اور اسی راستے اور اسلوب فکر وعمل نے انہیں سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے امن مشن سے ہم آہنگ کیے رکھا۔ جس کے نتیجے میں وہ ’طائف کے شیر‘کے طور پر مانے جانے لگے۔ قوم کو متحدہ کرنے کا کردار ہی ان کی اصل شناخت بن گیا۔

حسین الحسینی نے لبنان کے علاقے البقاع میں ایک معزز شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولی اور ساری عمر عوام کے ایک خادم کے طور پر گزار دی۔ عوامی خدمت کی اس زندگی کی شروعات اپنے آبائی گاوں کے مئیر کے طور پر کیں۔ وہ اس وقت ابھی اٹھارہ سال کے تھے۔ گویا جوانی اور عوامی خدمت میں قدم ایک ساتھ رکھا۔ عوام کے مسائل کے ادراک اور ان مسائل کی جڑوں کو سمجھ کر آگے چلنے کا عزم کیے ہوئے حسین الحسینی 1972 میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی نو عمری کی وجہ سے انہیں ایک جونئیر پارلیمنٹیرین کے طور پر لیا گیا، مگر بعد ازاں ایک راسخ خیال اور بالغ نظر شخصیت ہونے کا تاثر ہمیشہ موجود رہا۔

سعودی نگرانی میں ہونے والے معاہدہ طائف کے موقع پر حسین الحسینی کی یادگار تصویر
سعودی نگرانی میں ہونے والے معاہدہ طائف کے موقع پر حسین الحسینی کی یادگار تصویر

انہی برسوں میں لبنان جنگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ 1975 سے شروع ہونے والا یہ جنگ و جدل کئی دہائیوں تک مسلط رہا، مگر حسینی الحسینی اپنے منفرد انداز کے ساتھ سب کو اکٹھا کرنے اور اکٹھا رکھنے کے مشن میں جتے رہے۔ اسی دوران 1984میں پارلیمنٹ کے سپیکر چن لیے گئے۔

قوم کو گروہی لڑائی میں لہو لہان ہوتے دیکھ کر حسین الحسینی کو مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت کا احساس پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا۔ اس لیے سپیکر پارلیمنٹ بننے کے صرف پانچ سال کے اندر اندر وہ 1972 والی پارلیمنٹ سے ساتھ چلے آنے والے اپنے ساتھیوں کو افتراق کے بجائے اتفاق اور جنگ کے بجائے امن کے ایجنڈے پر یکسو کر چکے تھے۔

اس پس منظر میں ان کی سب سے بڑی خدمت ہی ان کی شناخت بنتی گئی۔ 1989 میں وہ اپنے رفقاء کے ساتھ شاہ فہد کی سرپرستی میں ایک باضابطہ امن منصوبے کی داغ بیل کے لیے طائف پہنچے۔ عرب لیگ اور بین الاقوامی برادری کے نمائندے بھی طائف میں موجود تھے۔

شہزادہ سعود الفیصل اور حسین الحسینی طائف میں: فائل فوٹو
شہزادہ سعود الفیصل اور حسین الحسینی طائف میں: فائل فوٹو

حسین الحسینی اور ان کے ساتھی ارکان پارلیمنٹ نے تقریبا پندرہ سال سے جاری خونریزی اور خانہ جنگی کو شاہ فہد کے زیر سرپرستی خاتمے کی طرف لانے کا عہد کیا۔ لبنان میں امن کی صبح کے لیے شراکت اقتدار کا ایک نیا فارمولہ ترتیب دیا گیا۔ یہی معاہدہ طائف کہلایا۔ حسین الحسینی کے اس معاہدہ طائف میں کردار نے انہیں اس معاہدہ کے روح رواں کے طور پر لیا۔

یقیناً وہ اس کے مستحق تھے کہ اس معاہدے کے تخلیق کاروں کے ناموں میں ان کا نام بہت اوپر تھا۔ یہیں سے انہیں طائف کے شیر کا لقب ملا۔ اسی دیانت ومہارت اور مفاہمت کی پہچان کے سبب انہیں بعد ازاں لبنانی دستور کے سرپرست اور ملک میں قانون کی بالا دستی کی مضبوط ترین آواز کے طور پر دیکھا اور سنا گیا۔ وہ ہمیشہ طائف معاہدے کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔

تاہم انہیں صرف معاہدہ طائف کے 'گاڈ فادر' کے طور پر قرار دینا قرین انصاف نہیں ہو گا۔ اس نرم گفتگو کی شہرت اور امتیاز رکھنے والی شخصیت نے گرم دم جستجو بھی اپنے کردار کو لبنان کی سیاسی میدان میں خوب فعالیت اور جرات کے ساتھ جاری رکھا۔ وہ لبنان کی امل تحریک کے ایرانی نژاد شیعہ عالم سید موسٰی الصدر کے ساتھ مل کر شریک بانی قرار پائے۔

سید موسیٰ الصدر امل موومنٹ کے پہلے صدر بنے۔ بعد ازاں جب موسیٰ الصدر کو لیبیا میں اغوا کر لیا گیا تو حسین الحسینی ان کی جگہ امل کے قائم مقام صدر بنے۔ اغوا کی یہ کارروائی ظاہراً آیت اللہ روح اللہ خمینی کے اشارے پر ہوئی تھی جو موسیٰ الصدر کی کرشماتی شخصیت سے خوفزدہ تھے۔ آیت اللہ خمینی سمجھتے تھے کہ سید موسیٰ الصدر کی موجودگی میں ایرانی آشاوں اور ضرورتوں کے مطابق خطے میں شیعہ فورس کی تشکیل آسان نہ ہو گی۔

سید موسیٰ الصدر
سید موسیٰ الصدر

عوام میں مقبولیت کے حامل شعیہ رہنما ہونے کے باوجود وہ ایرانی پراکسی بننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ یہی معاملہ حسین الحسینی کا تھا۔ اس لیے بعد ازاں شام کے حافظ الاسد نے امل موومنٹ کی صدارت کے لیے نبیہ بیری کو آگے لانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ سمجھوتہ کر لینے اور بے ایمانی میں نمایاں ہونے کی وجہ سے نبیہ بیری ان کے لیے کارآمد تھے۔ بیری نے 1992 میں حسین الحسینی کی جگہ پارلیمنٹ کے سپیکر کا عہدہ سنبھالا، بد قسمتی سے وہ آج بھی ایک 'کارآمد' سپیکر کے طور پر موجود ہیں۔

سپیکر شپ سے الگ ہونے کے بعد بھی حسین الحسینی نے اپنا قومی عزت و وقار اور امن کے لیے کردار جاری رکھا۔ وہ ایک قانون ساز کے طور پر بھی اپنا کرادر ادا کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔ انہوں نے آئین و قانون کے معاملات طے کرنے اور چلانے کے لیے ایک ایسا معیار پیش کیا کہ لبنانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکل پیدا ہو گئی۔ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ کا چلن تو حسین الحسینی کے زندگی بھر کے کردار اور پیش کردہ اس معیار سے کسی صورت مطابقت کا رجحان نہ رکھتا تھا۔

2008 میں شیعہ امل کی 'جوڑی' نے حسین الحسینی کو پارلیمنٹ سے بھی نکال باہر کرنے میں کامیابی پا لی۔ 'جوڑی' وہ رفیق الحریری کی 2005 میں موت کے بعد وہ حسین الحسینی کے امن پسندی پر مبنی فکر و عمل کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

لبنان کے کرپٹ سیاسی عناصر نے حسین الحسینی اور ان کی ہم خیال نسل کو پر بہت زیادہ سادہ لوحی اور مثالیت پسندی کا بھی طعنہ دیا۔ وہ اس بات کو ثابت کرنے میں لگے رہے کہ طائف معاہدہ صرف حافظ الاسد کی لبنان پر بالادستی کو روکنے کا ایک دھاگے سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔

11جنوری 2023 کو اپنے انتقال تک حسین الحسینی نے کبھی ایک لمحہ بھی اس امر سے دوری اختیار نہیں کہ ' لبنان اور اس کے عوام کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے لیے آئینی اداروں کے زیر انتظام سول انداز سے چلنے والی ریاست کے طور پر ایک نیا راستہ بنانے کی ضرورت ہے، ' آئین و قانون کی بالا دستی کا راستہ ۔'جو امن اور قومی یکجہتی و اتحاد کے ماحول میں ہی اختیار اور طے کیا جاسکتا ہے۔

وہ آخر وقت تک گہرے شعور کے ساتھ یہ سمجھتے اور بیان کرتے رہے کہ اسی 'ٹریک' پر چلنے سے مہارت کے حامل سول حکام اپنا کام کر سکتے ہیں۔ حسین الحسینی اگرچہ اپنی زندگی میں لبنان کو معاہدہ طائف کے مطابق چلانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر ان کے ساتھ اس راستے پر چلنے کے آرزو مندوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ورثے کی صورت موجود ہے۔

جنہوں نے اکتوبر 2019 میں لبنان کے گلی کوچوں میں نکل کر لبنان کے لیے اصلاحات، وقار و عظمت اور حقیقی اقتدار اعلیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ آواز اور مطالبہ حسین الحسینی کے بعد بھی سنائی دیتا رہے گا۔ جبکہ پس منظر میں حسین الحسینی نظر آتے رہیں گے۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں