اب ہم چینی امور کےمختلف ماہرین سے یہ سنتے ہیں کہ چین کی معیشت کی ترقی کی رفتارسست روی کا شکار ہے،نہ صرف اس لیے کہ آبادی بچّوں کی کمی کے ساتھ بوڑھی ہورہی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ اصل میں گِررہی ہے۔لہٰذا چین 2050ء تک عالمی بالادستی حاصل نہیں کرسکے گا جبکہ صدرشی جِن پنگ نے 20 ویں نیشنل کانگریس سے میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ’’چین کو ایک عظیم جدید اشتراکی ملک بنائیں گے جو دنیا کی قیادت کرے گا۔ قومی طاقت اوراثرورسوخ کا حامل ہوگا‘‘۔
جی ہاں، یہ سچ ہے کہ چین میں بہت کم بچے پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ زیادہ ترممالک (بشمول ایران) میں معاشی ترقی کے ساتھ تولیدی زرخیزی میں عام کمی کے علاوہ، یہ کمیونسٹ پارٹی کی ایک بچّے کی ظالمانہ پالیسی کی تباہ کن وراثت کا بھی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بہت سی بچّیوں کو قتل کیا گیا( کیونکہ صرف لڑکے ہی خاندانی نام کو برقراررکھتے ہیں)۔ چناں چہ آج کے چندنوجوان مردوں کے پاس اور بھی کم ممکنہ بیویاں ہیں۔
لیکن مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے ہمارے دورمیں چین کی گرتی ہوئی آبادی کو دیکھ کراس کے معاشی مستقبل کی پیشین گوئی کرنا اب ممکن نہیں ہے یا بھارت کواس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے چین پربرتری حاصل کرتے ہوئے دیکھنا بھی ممکن نہیں۔
درحقیقت پیچھے مڑکردیکھیں تو ہمیں کسی نہ کسی وجہ سے چین کے جمود کے بارے میں کئی سابقہ پیشین گوئیاں یاد آسکتی ہیں:جب 1976ء میں ماؤ(ماؤزے تنگ) کی موت کے بعد بالآخر نجی کاروبار کی اجازت دی گئی اور معیشت میں تیزی سے اضافہ ہوا تو بہت سے ماہرین نے پیشین گوئی کی تھی کہ’’ترقی جلدہی سست روی کا شکارہوجائے گی کیونکہ کمیونسٹ پارٹی بھاری صنعتوں یعنی لوہے، اسٹیل اور سیمنٹ کونہیں کھولے گی جبکہ ٹریکٹرساز فیکٹریوں سے لے کردوسری صنعتوں تک کو مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
جب کمیونسٹ پارٹی نے1980ءکی دہائی کےآخرمیں پرانی صنعت(اورشمال مشرقی چین) کواپنی قسمت پرچھوڑدیا اورچینی مینوفیکچرنگ اورکپڑوں،جوتوں اورہاتھ کے اوزاروں کی برآمدات میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا تھا تو ماہرین نے چین کے’’درمیانی آمدن کے جال‘‘میں گرنے کے بارے میں بات کرناشروع کردی تھی۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ممالک سستی محنت پرمبنی اشیاء برآمد کرنے میں مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی اجرت اورلاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے جبکہ وہ بھاری لاگت والی پیداوار میں مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان میں مہارت کی کمی ہوتی ہے اوران کی پیداواری صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔
لیکن چین نے اس رکاوٹ کوبھی عبورکرلیا،اس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ تعلیم میں اس کی زیادہ ترغیرمرئی سرمایہ کاری اتنی ہی بڑی تھی جتنی تیزرفتارٹرینوں، سڑکوں، ہوائی اڈوں اور دیوہیکل کنٹینر، بندرگاہوں میں اس کی بہت واضح سرمایہ کاری تھی۔مزیدبرآں، تعلیم میں چین کی سرمایہ کاری فی الواقع کارگرثابت ہوئی ہے کیونکہ یہ کبھی سائنس اورٹیکنالوجی تک محدود نہیں رہی ہے۔شروع سے ہی،اس کے ہاں تعلیمی اداروں میں غیرملکی اورکلاسیکی زبانیں (15 چینی جامعات لاطینی اور یونانی زبانیں پڑھائی جاتی ہیں)، فلسفہ اور عالمی ادب پڑھائے جاتے ہیں۔صدر شی جن پنگ خود یورپی ادب کے دلدادہ ہیں۔اس طرح نقلی تکنیکی ماہرین کو تربیت دینے کے بجائے،چین تصوراتی تکنیکی ماہرین کو تعلیم دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ، چینی کرنسی اور پبلک فنانس کو انتہائی قابل احترام ماہرین کنٹرول کرتے ہیں اورمغرب میں بھی انھیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس سب کے باوجود،آج کا چین اپنی تاریخ کے ساتھ ہمیشہ سچّا رہاہے۔ برطانیہ میں صنعتی انقلاب تک، چین ہمیشہ دوسرے ممالک سے زیادہ امیرتھا۔سنہ 1800ء تک چین عالمی معیشت کے ایک تہائی حصہ کا مالک تھا۔ لگاتار سیاسی اتھل پتھل اور کمیونسٹ معاشیات کی تباہی کے ساتھ 1950 تک چین کا عالمی معیشت میں حصہ صرف 5 فی صد تک رہ گیا تھا۔اب چین عالمی معیشت کا 20 فی صد بننے کی طرف بڑھ رہا ہے،اوراگروہ مزید بڑی غلطیاں نہیں کرتا توشاید مستقبل میں اس سے بھی زیادہ حصہ حاصل کرپائے گا۔جیسا کہ صدر شی جن پنگ کا جیک ما (اور تمام ہائی ٹیک) پرحملہ تھا اوریہ مظہراب بھی نئے آئی ٹی گریجوایٹس میں بے روزگاری کا سبب بن رہا ہے۔
مگرچین غالب عالمی طاقت بننے میں ناکام رہنے میں اپنی تاریخ بھی برقراررکھے گا کیونکہ اس کی معاشی طاقت ہمیشہ تزویراتی ناکامی کے ساتھ رہی ہے۔تعلیم یافتہ چینیوں کویقین ہوچکا ہے کہ تمام غیرملکی احمق، سادہ لوح، لالچی ہوتے ہیں اور وہ آسانی سے دھوکے میں آسکتے ہیں اور یہ کہ جنگ میں انھیں شکست دینے کے لیے صرف چالاکی کی چالیں کافی ہیں۔ان تعلیم یافتہ چینیوں میں اس اوہامی سوچ کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ وہ صدیوں سے اپنے ارد گردرہنے والے خانہ بدوشوں، کوہ پیماؤں اورجنگلوں میں مقیم لوگوں ہی کواپنی ’’عظیم مادی برتری‘‘ سے مغلوب کرتے رہے ہیں۔
قابلِ ذکربات یہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین کے حامل رہے ہیں کہ صدیوں تک انھیں بہت تھوڑی تعداد میں مگرترقی یافتہ حملہ آوروں کے ہاتھوں باربارشکست سے دوچارہونا پڑا ہے حالانکہ ان چینیوں کی اپنی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔1912ء میں جرچن بولنے والے مانچوؤں کے زوال سے پہلے کے ہزارسال کے دوران میں یہ صرف 1368–1644 تک مِنگ خاندان کے دورمیں ایسا ہوا تھا کہ چینیوں پرچینیوں کی حکمرانی تھی۔شاید اس وجہ سے کہ اس خاندانی حکمرانی کے بانی ، ژویوآن ژانگ نے خانقاہ کے خادم کے طور پرشروعات کی تھی اورچین کے مینڈرینوں سے غلط تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔بیسویں صدی میں،1945ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا سے شکست سے دوچار ہونے تک جاپانی غیرملکی فاتحین میں سے آخری حملہ آورتھے جنھوں نے بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود بیجنگ ،نانجنگ ، شنگھائی ، کینٹن اور چین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہوئے تھے مگر وہ اسے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے جبکہ کمیونسٹ اورکومنتانگ دونوں طاقتیں ان سے کامیابی سے لڑنے سے قاصررہی تھیں۔(سوائے ان گنت فلموں میں لڑائی سے)۔
آج، کوئی بھی زمینی حملہ آورجنگجوبیجنگ کے لیے خطرہ نہیں ہے، لیکن اس کے حکمرانوں کی مکمل تزویراتی نااہلی برقرارہے۔بالکل ایسے وقت میں جب امریکا کو چین پر قابو پانے کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہے، بیجنگ کی 2009 کے بعد سے احمقانہ جارحیت نے جاپان کی غیر جانبداری کی طرف رجعت کوپلٹ دیا ہے(ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کے عروج کے دورمیں ایسا ہوا تھا۔یہ اب معدوم ہو چکی ہے) اور اسے ایک مضبوط امریکی اتحادی بنا دیا ہے۔ چین نے بھارت کوامریکا کے ساتھ (روس کو کھوئے بغیر)’’غیروابستگی‘‘سے دوردھکیل دیا ہے اورانڈونیشیا کو اپنے آف شورقدرتی وسائل کے دفاع کے لیے غیرجانبداری سے دست بردار ہونے پرمجبورکیا ہے۔ اسی ہفتے فلپائن کے صدر بونگ بونگ مارکوس نے بیجنگ کے کامیاب دورے سے واپسی پر ہی امریکی بحریہ کی زیادہ سے زیادہ موجودگی کا مطالبہ کیا تھا۔جہاں تک آسٹریلیا کا تعلق ہے، جس میں چین کی بھاری درآمدات کی وجہ سے اسے کئی سالوں تک مالامال کیا گیا تھا، چینیوں نے کس طرح یہ فیصلہ کیا کہ وہ آسٹریلیا کو کوئلے اور شراب کی درآمدات روک کرایک تحقیقی ادارے کو بند کرنے کے لیے اپنے احکامات کی تعمیل کرنے پرمجبور کر سکتے ہیں۔یہ آسٹریلوی ادارہ چینی حکمتِ عملی کا تحقیقی مطالعہ کرتا ہے۔
بہ الفاظ دیگرچینی رہ نما اب بھی سمجھتے ہیں کہ غیرملکی سادہ لوح، گنواراورلالچی ہیں اورآسانی سے ان کا استحصال کیا جاسکتا ہے۔(ایسے ہرمعاملے میں،چینی سفارت کاروں نے ان پالیسیوں کوروکنے کی کوشش کی ہے اورناکام رہے ہیں، لیکن چین میں وزارتِ خارجہ بہت کمزورہے اور زیادہ تر پروپیگنڈا پھیلانے کا کام کرتی ہے،معلومات کی تشہیرکے لیے نہیں۔)
لہٰذا یہ امریکا کی سفارت کاری نہیں بلکہ چین کی سفارتی نااہلی ہے جس نے امریکاکوآسٹریلیا سے لے کرجاپان کے راستے بھارت تک اپنے اتحادی فراہم کیے ہیں تاکہ وہ اجتماعی طورپرچین کی آبادی سے زیادہ تعداد حاصل کر سکے،اس کی معاشی استعدادسے تجاوزکرسکے اور کسی بھی جنگ میں اس پرغالب آسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈورڈ این لوٹواک امریکی حکومت کے لیے کنٹریکٹ پرتزویراتی کنسلٹنٹ اور مصنف ہیں۔