بین الاقوامی سطح پر اس خبر کا نہایت مسرت کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا کہ سعودی عرب اور ایران نے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے پراتفاق کیا ہے۔یہ سنگِ میل عراق ،عُمان اورچین کی کوششوں سے طے کیا گیا ہے۔ سات برس قبل 2016 جب سعودی عرب نے ایران نواز شیعہ عالم الشیخ النمر کو دہشت گردی کے جرم میں تہ تیغ کیاتواس کے ردِعمل میں ایک مشتعل ہجوم نے تہران میں واقع سعودی سفارت خانہ پر حملہ کر دیاتھا۔مشتعل ایرانیوں نےمشہدمیں سعودی قونصل خانے کو بھی اپنے حملے میں نشانہ بنایا تھا۔اس حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین گزری صدی کے نصف اوّل میں قائم ہونے والےسفارتی تعلقات میں کئی بار اُتارچڑھاؤآیا ۔ متعدد مرتبہ الریاض اور تہران کے باہمی سفارتی تعلقات منقطع ہوئے ۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں حالیہ انقطاع کے دوران میں عراق اور عُمان نے الریاض اور تہران کو ایک میز پر بٹھانے کی کوششیں شروع کیں ۔ اس موقع پر عوامی جمہوریہ چین نے آگے بڑھ کر ثالثی کا کردار ادا کیا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے دسمبر 2022 میں الریاض کا دورہ کیا ۔ پھر گذشتہ مہینے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چین کے دورے پربیجنگ پہنچے۔ یوں برف پگھلتی گئی اور بیجنگ میں سعودی و ایرانی حکام کے مابین چھے سے دس مارچ تک منعقدہ مذاکرات کے بعد جمعہ کے روز ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پا گیا ۔ چین کی کوششوں سے ہونے والے اس معاہدے کے مطابق سعودی عرب اور ایران اگلے دو مہینوں کے اندر الریاض اور تہران میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولیں گے ۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کریں گے،ایک دوسرےکےاندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ دونوں ملک آپس میں خوش گوار دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں گے اور اپنے اختلافات کو گفت و شنید اور سفارت کاری کےذریعے حل کریں گے۔علاوہ ازیں الریاض اورتہران کے مابین سائنس،معیشت، تجارت ، کلچراوراسپورٹس سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ 1998 میں طے شدہ معاہدےاور2001میں سکیورٹی تعاون کے معاہدے کو بھی دوبارہ فعال کیا جائے گا۔
عالمی سطح پراس معاہدے کو خوش آیند پیش رفت قرار دے کرخیر مقدم کیا گیا ہے ، اور اس معاہدے کو نہ صرف مشرق اوسط میں بلکہ عالمی سطح پر تازہ ہوا کا خوش گوار جھونکا خیال کیا جا رہا ہے۔پاکستان نے اپنے دونوں دوست ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت نہ صرف مشرقِ اوسط بلکہ اس سے باہر بھی امن و استحکام میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔ چینی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو گفت و شنید کی فتح اور امن کی جیت قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور سعودی کے مابین خوش گوارسفارتی تعلقات خطۂ خلیج کے استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ انھوں نے اس معاہدے کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے کردار کو بھی سراہا ، اورعُمان اورعراق کی کوششوں کی بھی تحسین کی ۔ ترکیہ ، مصر ، عراق ، لبنان اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے اس معاہدے کو اہم سفارتی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی نہ صرف مشرقِ اوسط کی سیاست، بلکہ عالم اسلام پر خوش گوار اثرات مرتب کرے گی ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں ان دونوں ملکوں کی وجہ سے مذہبی رائے عامہ تقسیم کا شکار ہے ، جس کے باعث مسلم سماج کو فرقہ واریت کے عفریت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس معاہدے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ مسلم سماج میں موجود فرقہ ورانہ تلخی میں کمی آئے گی۔اس معاہدے کے بعد خصوصاً شام اور یمن میں جاری لڑائیوں کے خاتمے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔سعودی عرب ، ایران دوستی سے نہ صرف علاقائی امن واستحکام کو فروغ ملے گا،بلکہ اس سے عالمِ اسلام کا اتحاد بھی مضبوط ہو گا۔ ایران اور سعودی عرب میں صلح کے بعد اگرمسلم سماج میں تعلیم و ترقی ، تجارت ، مشترکہ دفاع اور باہمی اتفاق و اتحاد پر توجہ مرکوز کی جائے تو عالمی افق پر عالمِ اسلام ، چین اور روس جیسے دوست ممالک کے ساتھ ایک الگ مضبوط بلاک کی صورت میں ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔
چین کی کوششوں سے طے پانے والے اس معاہدے پر تل ابیب اور واشنگٹن خاصے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا ’ لڑاؤاور حکومت کرو‘ کےاصول کے تحت ایران کا ہوّا کھڑا کرکے ایک طرف عرب ممالک کے وسائل لُوٹ رہا تھا ، اور دوسری طرف اسرائیل کو ان پر مسلط کرنے کی سازشوں میں مصروف تھالیکن چین نے ریاض اور تہران میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ کرا کے امریکی سازشوں پر پانی پھیردیا ہے ۔ امریکا اوراسرائیل نے ایران کے خلاف محاذ قائم کر رکھا تھا ، اور بڑی عیاری کے ساتھ مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر اپنوں کو اپنوں ہی کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔چین نے سعودی عرب اورایران میں ثالثی کا کردار ادا کرکے مشرقِ اوسط میں امریکا کے کردارپر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں ۔ سفارتی حلقوں کے مطابق اس معاہدے سے امریکا اور اسرائیل دونوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے ، کیوں کہ چین کے اس شان دار سفارتی چھکے نے ایران کوتنہاکرنے کی امریکی کوششیں ناکام بنا دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل اس معاہدے پر تلملا رہے ہیں ۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس معاہدے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اہم سفارتی پیش رفت سے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔اسرائیلی حزب ِ اختلاف نے اس معاہدے کواسرائیلی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ لہٰذاچین ، ایران اور سعودی عرب کو آگے بڑھتے ہوئے ان دونوں ’ بہی خواہوں ‘ سے محتاط رہنا ہوگا۔