بلاشبہ پاکستان مشرق وسطیٰ کا براہ راست حصہ نہیں ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے اس کی اہمیت وافادیت ہمیشہ غیر معمولی رہی ہے۔ پاکستان کے جوہری طاقت بننے سے پہلے بھی اس کی مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے لیے خصوصی اہمیت موجود رہی اور آج جوہری طاقت کا حامل ہونے کے بعد یہ اہمیت مزید بڑھ چکی ہے۔
اس کی اہمیت انسانی وسائل وافرادی قوت کے باعث بھی مسلمہ رہی ہے اور عسکری اہلیت وشناخت اور خدمات کے حوالے سے بھی قابل لحاظ رہی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی معاملات کی کمزوری نئے حالات میں اس کی حیثیت اور تشخص کو زیادہ مجروح کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بہت ساری نئی حقیقتیں، جہتیں اور حکمت عملی کی صورتیں ادل بدل ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں ایک بار پھر اضافے کی شروعات ہیں۔ یہی معاملہ مشرق وسطیٰ میں رواں ماہ کے دوران چین کی مدد سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحتی منظر نامے کے بعد سامنے آ رہا ہے۔ اس تناظر میں بھی مشرق وسطیٰ کا براہ راست حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان خاص اہمیت اور وزن رکھتا ہے۔ بعض اسلامی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ 'نارملائزیشن' کے بعد پاکستان کے لیے بھی نئے حالات وامکانات وا ہو رہے ہیں اور نئے چیلنج ابھر رہے ہیں۔
رنگ برنگے اسرائیل کے بارے میں پاکستان میں بھی رنگ برنگی باتیں، خبریں، دعوے، وعدے اور عندیے سامنے آتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق پاکستان کے اندرون اور بعض کا بیرون سے ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کے گولڈن جوبلی کے سلسلے میں خصوصی سیشن میں خطاب کے دوران میں نام لیے بغیر اسی جانب اشارتاً تذکرہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے آئی ایم ایف کے مطالبات کے حوالےسے کڑی شرائط کے انداز میں ذکر کیا تاہم رازداری اور عوام سے اخفا کا اہتمام بھی جاری رکھنے کی روایت جاری رکھی۔
واقفان حال ان باتوں کو پاکستان کے میزائل پروگرام پر آئی ایم ایف کی طرف سے قدغنوں کے مطالبے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے یہ مطالبہ بظاہر خیر خواہی کے تاثر کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے کہ وسائل کی شدید قلت اور معاشی بد حالی کے اس سمے میں 'لانگ رینج 'میزائلوں پر وسائل خرچ کرنا کیونکر پاکستان کے حق میں ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے 'لانگ رینج' میزائلوں پر عالمی طاقتوں کی نظریں کافی عرصے سے ہیں۔ حقیقی وجہ پاکستان کے خرچے بچانے کی معصومانہ خواہش اور مخلصانہ کوشش نہیں ہے۔ بڑی وجہ پہلے مرحلے میں اسرائیل کو پاکستان کے ان میزائلوں کی زد سے بچانا ہے اور اگلے مرحلے پر یورپ کو مامون و محفوظ رکھنا ہے۔
اس خواہش کی بنیاد پر پاکستان کے ایک مہربان اور خیر خواہ برادر ملک کے توسط سے پچھلے برس پاکستان کی مقتدر قیادت کے ساتھ اس بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کر کے اسرائیل کے ساتھ 'سیمی نارملائز' قسم کے تعلقات کی شروعات پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاکہ پاکستان اپنے معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے تجارت کی طرف پیش قدمی کے قابل ہو سکے اور پاکستان کے لیے اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی راستے بھی کھل سکیں۔
اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے یہ تجارتی راستے براہ راست اور بالواسطہ کھل سکنے کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔ بشرطیکہ پاکستان کے میزائلوں سے اسرائیل کو خطرات لاحق نہ رہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو اس بارے میں راستہ دکھانے کی کوشش پچھلے سال کے آغاز میں کی گئی تھی۔
بعض حکومتی ذرائع اس بارے میں دعوی کرتے ہیں کہ برادر ملک نے اس معاملے پر پاکستان کے با اثر افراد کو قائل کرنے کے بعد ابھی تک 'فالو اپ' جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم موجودہ کمزور سیاسی منظر نامے میں اس جانب عملی پیش رفت مشکل تر ہے۔ اسی طرح کے مسائل پچھلی حکومت کو بھی درپیش رہے کہ انتخابات کے سال کے دوران وہ بھی یہ 'رسک 'لینے کی پوزیشن میں نہ تھی۔
اب نئے انتخابات کی دروازوں پر دستک کو سنا جا سکتا ہے۔ ایک اہم مسئلہ نئی عسکری قیادت کا آ جانا اور اس کو بڑے 'چیلنجنگ انوائر منٹ' کا سامنا ہونا بھی ہے۔ جنرل باجوہ عالمی سطح پر ایک کھلاڑی کے طور پر کافی بے دھڑک ہو چکے تھے۔ لیکن ان کے بعد لاحق ہو چکے دھڑکوں میں اضافہ اور بے دھڑکی میں کمی ہو چکی ہے۔ گویا یہ مشکل پہلی مشکل سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان رواں ماہ کے دوران چین میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے بعد پاکستان اور اس کے 'لانگ رینج' میزائلوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اسرائیلی پریشانی اسرائیل کے عالمی سرپرستوں کے لیے بھی اہم ہے۔
غالباً اسی تناظر میں 'آئی ایم ایف' نے معاشی بدحالی کے منجدھار میں پھنسے پاکستان کو اس جانب ایک نئے مطالبے کی صورت میں متوجہ کیا ہے۔ واقفان حال دوست ممالک پاکستان کو وعدوں کے مطابق فنڈز کی فراہمی میں رکاوٹ کو اسی سے جوڑتے ہیں کہ 'آئی ایم ایف' کی طرف سے سبز اشارے کے بغیر دوستوں کی طرف سے بھی وعدے ایفا کرنا آسان نہیں ہے۔ البتہ چین کی طرف سے قدرے امید ہو سکتی ہے۔
سول اور عسکری قیادتوں میں یہ سوچ بھی یقیناً موجود ہے کہ اگر آج' لانگ رینج' میزائلوں پر اسرائیل کے اطمینان کی خاطر قدغن قبول کی گئی یا سمجھوتہ کلیا گیا تو آنے والے دنوں میں 'شارٹ رینج' ہتھیاروں پر بھارت کے حق میں بھی دباؤ کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے۔ جو ملکی سلامتی اور سیاسی استحکام دونوں کے حوالے سے خطرناک چیز ہو گی۔
بلا شبہ اس اپروچ کا ہونا قابل تعریف اور قابل قدر ہو گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے خطرات کی مکمل روک تھام ہو گئی ہے اور دباؤ ٹال دیا گیا ہے۔ ابھی قومی توجہ اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ زلمے خلیل زاد کے حالیہ ٹویٹ کے راستے بھی کثیر جہتی نرم دباؤ ہی کی ایک سبیل مقصود ہوکہ جو بھی مان گیا اس کے لیے راستے کشادہ، ہموار اور ایوان اقتدار کی 'منزل' آسان بنا دی جائے۔
پی ٹی آئی، جس کی قیادت نے نئی نسل کو ایک خاص بیانیہ دے کر اپنے گرد جمع کیا ہے اس، پر ذمہ داری زیادہ ہو گی کہ وہ قوم اور نوجوانوں کےاعتماد کو مجروح نہ کرے ۔ بار بار کے 'یوٹرن' بالآخر دائروں کے سفر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دائروں کا سفر 75 برسوں سے جاری ہے۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے لیے بھی آزمائش کم نہیں ہے۔ دانش وتدبر اور قومی سلامتی و مفاد ترجیح اول رہا تو ملک آگے بڑھنے کے راستے پر پھر آ سکے گا۔
فیصلہ سازوں کے لیے یوکرین کے تجربے میں بڑا سبق ہے۔ برے سیاسی ماحول اور برے معاشی حالات میں بیرونی مطالبات یا دباؤ کم نہیں ہوتا بلکہ یہ شکلیں اور چہرے بدل بدل کر سامنے آتا رہتا ہے۔ کبھی ایک حکومت کے ہوتے ہوئے ایک شکل میں اور دوسری حکومت کے ہوتے ہوئے دوسرے چہرے کے ساتھ۔ اس کو کس طرح نمٹانا ہے اور کس طرح اس سے نکلنا ہے، حکومت اور فیصلہ سازی میں دخیل اداروں کا یہی امتحان ہے ۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے لیے جہاں چیلنج موجود ہیں۔ وہیں مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ صرف اسی صورت اٹھایا جا سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام کی حقیقی خواہش اور کوشش ہو۔ اتفاق سے اس وقت اس کی کافی کمی ہے۔ معاشی منجدھار سے نکلنے کے لیے بھی وہ اقدامات کیے جائیں جو حکومتیں بچانے اور حکومتیں گرانے سے ہٹ کر ہوں۔ مقصد ملک اور ملکی معیشت کو حقیقی معنوں میں بچانا ہونا لازم ہے۔
پاکستان کا محل وقوع اور جوہری اثاثے پاکستان کو خطے اور دنیا میں غیر معمولی اہمیت دلانے کا مؤجب ہیں۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے 23 کروڑ عوام کو بھی اپنے اثاثے کے طور پر دیکھنا شروع کریں اور اس عظیم اثاثے کو نظر انداز، مایوس یا ضائع کرنے کی روش تبدیل کرکے اسے یکجہت کریں، اپنی قوت بنائیں۔