جنرل باجوہ ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کی سیاست میں ایک اہم موضوع کے طور پر موجود ہیں۔ فوجی سربراہ کے طور پر ان کا ملکی سیاست میں عمل دخل بلا شبہ فیصلہ کن رہا۔ وہ چھ برسوں کے ملکی سیاست کا سب سے اہم باوردی کردار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تین سال کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع بھی آسانی سے لینے میں کامیاب ہو گئے۔ صرف یہی نہیں وزارت عظمیٰ کا عہدہ کسی کو ملنا یا اس پر کسی کے رہنے کا مدار جنرل باجوہ کی صوابدید پر موقوف تھا۔ اسی سب ان کی خود اعتمادی آج کے وزیر اعظم اور کل کے وزیر اعظم کے بارے جو چاہے القابات جاری کرنے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ان کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی باوردی سیاست پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ وہ فوجی وردی کے بغیر بھی پاکستان کی سیاست سے غیر متعلق ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کی طرف سے وقفے وقفے سے مبینہ طور پر کیے جانے والے انکشاف انگیز خبری حملوں سے لگتا ہے کہ ایک بار پھر توسیع نہ ملنے کے بعد وہ 'زیادہ خطرے ناک' ہو گئے ہیں۔ اس لیے ماضی میں جس طرح ایک' باوردی سیاستدان' کے طور پر وہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر اپنا ذاتی ایجنڈا آگے بڑھا تے ہوئے کسی کو سزا اور کسی کو جزا دینے کے 'مالک ومختار 'بنے ہوئے تھے۔ اب اسی شدت کے ساتھ ہر ایک سے انتقام لینے کی کوشش میں ہیں۔ ان کے انتقامی حملوں کی زد میں بالواسطہ ہی سہی فوج بھی آ رہی ہے۔
جنرل باجوہ اپنے ان حملوں کے لیے کبھی ایک صحافی کا قلم ، کبھی دوسرے کی زبان اور کبھی تیسرے کے صفحات 'سلیکٹ' کرتے ہیں۔ یوں اپنے 'سلیکٹڈ' قسم صحافیوں کے ذریعے وہ اپنے ماضی کے سیاسی کھلواڑ طشت از بام کرتے ہوئے سیاست اور سیاست کاروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح 'ریٹنگ' کو اپنے اولین ہدف کے طور پر سامنے رکھ کر صحافت اور صحافتی اقدار پر بہت سے سمجھوتے کیے، اسی سمت میں سے آگے بڑھتے ہوئے کئی 'وی لاگرز' دین و وطن، اخلاقیات اور اقدار ہر چیز کا اپنی 'سبسکرپشن 'بڑھانے کے لیے سودا کرنے کو تیار بلکہ بروئے کار نظر آتے ہیں۔ یہ مرض کس قدر بڑھ چکا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے ممتاز اور نیک نام ترین صحافیوں میں سے ایک 'انصار عباسی' نے نومبر 2021 میں جسٹس ریٹائرڈ رانا شمیم کے لندن میں تیار کیے گئے ایک بیان حلفی کو اس امر کی پروا کیے بغیر اپنی خبر کا موضوع بنایا تھا کہ یہ بیان حلفی سچا ہے یا جھوٹا۔ اگر اندھا دھند چیزوں کو چلا دینے کا یہ رجحان انصار عباسی کی سطح تک غلبہ پا گیا ہے تو عام 'وی لاگرز' سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خبری اور صحافتی اقدار کو اہم مانیں گے۔ یہ صورت حال جنرل باجوہ اور اس نوع کی کئی دوسری شخصیات کو اپنے اپنے ایجنڈوں کے لیے بہت کار آمد لگتی ہے۔
جس طرح سیاست دانوں کی طرح کل ایک'سلیکٹڈ' تھا تو آج دوسرا ہے۔ بعینہ ریاست کا چوتھا ستون صحافت بھی 'سلیکشن' اور 'ڈویژن' کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ 'اینکرز' اور 'وی لاگرز' میں یہ تقسیم زیادہ نمایاں ہو چکی ہے۔ وطن عزیز میں ہر سطح پر تقسیم کی اس منظم سازش کا شکار آئینی ادارے بھی رہے ہیں۔ ان کے خلاف کبھی 'بریف کیسز 'کے ذریعے اور کبھی صرف 'کیسز' سازش اور کاوش جاری رہی ہے۔ آج بھی عدلیہ کے خلاف ایک منظم مہم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پارلیمنٹ میں مستقل تقسیم کے لیے 'الیکٹیبلز' کی فصل ہمیشہ تیار رکھی جاتی ہے۔
ریاست کے چوتھے ستون کے ساتھ کیا کیا جاتا رہا ہے اور کیا چل رہا ہے، یہ بھی سامنے کی کہانی ہے۔ جنرل باجوہ نے بعض صحافیوں کی نوکریاں ختم کرانے اور بعض پر فائرنگ کرانے کے واقعات کی اگرچہ ذمہ داری اپنے رفقا اور ماتحتوں پر ڈالی ہے لیکن اس کے باوجود ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کا ذکر اپنی گفتگووں سے گول کیا ہے۔ ان کے رنگ برنگے انکشافات کا ذریعہ بننے والے صحافیوں کو بھی شاید حدود و قیود کے بارے میں پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ بس وہ سوال کریں جو کہے گئے ہیں ‘ Do as directed’۔
بہر حال جنرل باجوہ جن کی ریٹائرمنت کو ابھی بمشکل چار ماہ ہوئے ہیں، پوری استادی کے ساتھ بعض میڈیا ہاوسز اور میڈیا پرسنز کو استعمال کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور سابق وزیر اعظ عمران خان کے بارے میں بے دھڑک وہ کہا جو ان کے دل میں آیا۔ اسی ترنگ میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کے بارے میں بھی کافی کچھ کہہ ڈالا۔ انہیں اہم شخصیات اور عہدے داروں کے بارے میں کیا کہنا چاہیے تھا اور کیا نہیں اس بارے دورائے ہو سکتی ہیں۔ مگر اس بارے میں قطعاً دو رائے نہیں کہ بطور آرمی چیف جنرل باجوہ میڈیا کو بھی کس ہوشیاری اور مہارت سے استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہوں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ فروری 2021 سے وہ 'اے پولیٹیکل' ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کے سابق چیف کیا سلوک کر رہے ہیں۔ کیا آج کی سیاست کے اہم لازمے 'آڈیو ویڈیو ٹیپس' اور انکشافات کے ہتھیاروں سے لیس جنرل باجوہ کے انٹرویوز 'اے پولیٹیکل' ادارے اور اس کی قیادت پر حملہ آور ہونے کے مصداق نہیں ہیں؟ خصوصاً جب اس ادارے اور اس کے سربراہ کو ملک کے اندر سے ہی نہیں بیرون سے بھی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ملک کی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر چیلنج بھی بڑھے ہوئےہیں۔ فوج کے لیے مسائل کا یہ عالم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخاب کے لیے فوجی نفری دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جبکہ سابق سربراہ اسے پھر سے سیاست میں کھینچ رہا ہے۔ جنرل باجوہ کے صحافیوں کے توسط سے یہ حملے نئے شکوک و شبہات میں بھی اضافہ کررہے ہیں۔ فوج کی سیدھی سیدھی سبکی ہو رہی ہے کہ ادارے کی سطح سے 'اے پولیٹیکل' ہونے کا فیصلہ اس کے اپنے سربراہ کی طرف سے کس طرح روندا جاتا رہا۔ حد یہ ہے کہ اب سابق چیف اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹ رہے ہیں کہ وہ کس طرح سیاسی کھیل کھیلتے رہے۔ اپنے حلف کے باوجود وہ کس کس کو کھلونا بنا کر کھیلتے اور توڑتے رہے۔ جنرل باجوہ کے مبینہ انٹرویوز سے تو تاثر ابھرتا ہے کہ بطور آرمی چیف ان کا اصلی کردار ملکی سیاست کے حوالے سے ہی تھا اور وہ ایک کل وقتی سیاستدان تھے۔
بظاہر اپنی تازہ تازہ ریٹائرمنٹ کی وجہ سے جنرل باجوہ فوجی قواعد کے مطابق ابھی 'ایل پی آر ' کے باعث دو سال کے لیے میڈیا میں آنے اور سیاست میں کردار ادا کرنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔ ماضی میں کئی سابق فوجی سربراہوں نے اس کا اہتمام بھی کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس کی قریبی مثالیں ہیں۔ یہ دونوں آج تک خاموش ہیں۔ فوج سے 'ایل پی آر ' پر ہو نے کی صورت میں کسی ریٹائرڈ افسر کو کسی انتہائی صورت میں فوجی قواعد کی خلاف ورزی کرنا پڑے تو لازم ہے کہ اس بارے میں جی ایچ کیو کو اعتماد میں لے، اسے جی ایچ کیو کی پیشگی اجازت بھی کہا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر متعلقہ ریٹائرڈ افسر کو انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ اگر جنرل باجوہ کو ان کی انکشاف انگیز کارروائیوں سے روکا نہیں جاتا اور فوجی قانون قاعدے کی پاسداری کے لیے نہیں کہا جاتا تو اس سے تو یہ تاثر ابھرے گا کہ وہ یہ سب کچھ اجازت سے کر رہے ہیں !