حالیہ برسوں میں، عالمی کار مارکیٹ اتھل پتھل کا مترادف بن گئی ہے۔کرونا کے وبائی مرض کی وجہ سے سپلائی چین کے مسائل اورغیرمستحکم جغرافیائی منظر نامے،بشمول کاروں کی پیداوار کے لیے ضروری سیمی کنڈکٹر کی راشننگ نے نئی تیارکردہ کاروں کی دستیابی کو محدودکردیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کاریں ڈیلرشپ کی راہ داریوں پرفروخت ہورہی ہیں اوراستعمال شدہ کاروں کی ویب سائٹس پر فروخت ہونے والی کاریں صارفین کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ وبائی مرض کے دوران میں اوراس کے فوری بعد کے عرصے میں ذاتی لیکویڈیٹی میں اضافہ کے ذریعہ اس سرگرمی میں تیزی آئی ہے۔
متوقع طور پر بڑھتی ہوئی طلب اورآہستہ آہستہ سست رسد کی ان قوتوں کی وجہ سے نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں عالمی سطح پراضافہ ہوا ہے۔ یہ مسئلہ عالمی سطح پرافراطِ زرمیں اضافے کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔2015 کے بعد سے فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور اسپین میں ایک نئی کار کی اوسط قیمت 36,037 امریکی ڈالر سے بڑھ کر 44،769 امریکی ڈالر ہوگئی ہے۔اسی طرح کارون کی قیمتوں میں اضافہ امریکا میں بھی دیکھا گیا۔بلومبرگ کے اعدادوشمار کے مطابق 2019 سے نئی گاڑی کی اوسط قیمت 30 فی صد اضافے کے ساتھ 50 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
قیمتوں میں اس وقت نمایاں اضافے کے باوجود، ممکنہ مائیکروچپ کی کمی کا مطلب ہے کہ 2023ء میں نئی کاروں کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوگا۔صارفین کو نئی گاڑی پرسوار ہونے کے لیے ڈیڑھ یا دو سال کی تاخیرکی توقع کرنی چاہیے۔اس حقیقت نے عالمی کار مارکیٹ کو تبدیل کردیا ہے۔
تاریخی طور پر، جب صارفین نئی کاروں کو ڈیلرشپ سے باہر نکالتے ہیں، تو گاڑی کی قیمت کا 10-20 فی صد فوری طور پرگرجاتا ہے۔ اب، اسی گاڑی کو اس کی پیشگی قیمت سے زیادہ فروخت کیا جاسکتا ہے، کیونکہ صارفین نئی مرسڈیز جیسی گاڑیوں کو خریدنے کے لیے پریمیم ادا کرنے کے موقع پر چھلانگ لگارہے ہیں، بشرطیکہ لین دین 18 ماہ کے وقت سے گریز کررہا ہو۔
اس حد سے زیادہ قیمت کا استعمال شدہ کارمارکیٹ پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ استعمال شدہ گاڑی خریدنا پہلے سے کہیں زیادہ مہنگا اورمسابقتی ہو گیا ہے۔ دسمبر 2019 سے اکتوبر 2022 تک امریکی بیورو آف لیبرشماریات کے مطابق استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں 42 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ عام مارکیٹ کولنگ کے دوران میں استعمال شدہ گاڑیوں کی اوسط قیمتیں جنوری 2023 میں 29,000 ڈالر (سال بہ سال کی بنیاد پر7۔6 فی صد) تک گر گئیں،لیکن بنیادی رجحان ٹوٹا نہیں ہے۔
استعمال شدہ کاروں کی فروخت اورتشہیرکرنے والے آن لائن پلیٹ فارمز کی ترقی اور عالمی سطح پر ٹیکنالوجی سے چلنے والی خریداریوں میں اضافہ دراصل طلب اور قیمتوں میں اضافے کا ایک ناگزیرعنصرہیں۔زیادہ ترتیزی سے افراطِ زر کے رجحانات اور مارکیٹوں کے مطابقتی (ایڈجسٹمنٹ) میکانزم کی طرح ، اونچی قیمتیں ناقابل برداشت ہیں۔اس تمام صورت حال کی اصلاح ضروری ہے،مگر سوال صرف یہ ہے کہ کب ایسا ہوگا؟
ہم پہلے ہی اس متحرک منظر کو دیکھ رہے ہیں۔ سپلائی چین کے دباؤ کوکم کرنے سے سپلائی کو دوبارہ متوازن کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ س کے ساتھ ہی ایکویٹی مارکیٹ کی قیمتوں میں غیرمنصفانہ اضافہ بھی ختم ہورہا ہے جس کی وجہ سے کچھ سرمایہ کاروں اور صارفین کے پاس کم نقد رقم ہے۔ ڈسپوزایبل آمدن پر دوسرا دباؤ وبائی امراض کے بعد کااثرہے۔ 2020 اور 2021 میں صارفین کی قابل استعمال آمدن میں اضافہ ہوا کیونکہ وبائی امراض کی وجہ سے قرضوں کی برداشت، حوصلہ افزائی چیک، اوربے روزگاری کے فوائد پیدا ہوئے۔ بہت سے خریدار اب 2020 اور2021ء سے آٹوقرضوں پر ڈیفالٹ کررہے ہیں۔
بیرن کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ امریکاکو دوبارہ قبضہ شدہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ آٹو ڈیلرز نے بتایا ہے کہ دوبارہ قبضے میں لی گئی گاڑیاں نیلامی کے لیے جا رہی ہیں اور خریداروں کے قرض کی قدر(لون ٹو ویلیوایل ٹی وی) کا تناسب 130 فی صد سے زیادہ ہے۔ یہ ایک قدامت پسند تخمینہ ہے - بیرن کے ایک ڈیلر نے 140 فی صد تناسب کا حوالہ دیا ہے۔
ایل ٹی وی گاڑی کی اصل قدروقیمت کے مقابلے میں قرض کی رقم ہے۔اس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ خریدار26,000 ڈالرکے کار قرضوں پرڈیفالٹ کر رہے ہیں۔صرف 20,000 ڈالر کی گاڑیوں پر130 فی صد کی ایل ٹی وی ہے۔
مالی سال 2022 کی تیسری سہ ماہی میں مالیاتی خدمات مہیا کرنے والی کمپنی ویلزفارگو نے بھی آٹو قرضوں سے ہونے والے نقصان کی شرح میں اضافے کی اطلاع دی ہے۔
اگریہ اصلاح توقع کے مطابق ہوتی ہے، تو آج کافی پریمیم پر خریدی گئی نئی لینڈ رووَر پانچ سال میں اپنی قیمت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ رکھے گی، کیونکہ اس کی قیمت کے معمول کے ماحول میں اس کی اسٹیکر ویلیو کے مطابق کمی واقع ہوگی اور مبالغہ آمیز قیمت کو برقرار نہیں رکھا جائے گا جس پر اسے خریدا گیا تھا۔
اگرچہ اصلاح کا مطلب یہ ہوگا کہ بہت سے لوگ ہار جائیں گے ، لیکن اس پر افسوس نہیں کیا جانا چاہیے۔ 2020 کے آغاز اور آج کے درمیان ہم نے جوعالمی کار مارکیٹ دیکھی ہے،وہ صحت مند ہے اور نہ ہی پائیدار ہے۔ہم سپلائی نہ ہونے کی صورت حال سے انوینٹری کے سیلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اونچی قیمتیں ختم ہو رہی ہیں۔
ایکویٹی مارکیٹوں کے متوازی عالمی کار مارکیٹ میں ایک اصلاح بہت زیادہ ناگزیرہے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ یہ جلد یا بدیرہوگا، جس سے مارکیٹ میں شفافیت پیدا ہوگی اور مستقبل کے تباہ کن زوال کو روکا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق صقر کویت کی آن لائن کلاسیفائیڈ کمپنی 4 سیل کے بانی اور چیف ایگزیکٹوآفیسر(سی ای او) ہیں۔