سعودی وفد کا صنعاء کا دورہ
قریباً تین ماہ قبل ایران سے حوثیوں کے زیرقبضہ یمن کی بندرگاہ کی طرف جاتے ہوئے پانچ ہزار ہتھیاروں، پندرہ لاکھ گولہ بارود اور سات ہزار میزائل ٹکڑوں سے بھرے ایک بحری جہاز کو روکا گیا تھا اور اسے قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ اس جہاز پرلدا اسلحہ ان درجنوں کھیپوں میں سے ایک تھا،اگر سیکڑوں نہیں تو، جو گذشتہ قریباً آٹھ سال اورسات ماہ سے زیادہ عرصے سے یمن میں جاری جنگ میں کام آرہا ہے اوراس کو ہوا دے رہا ہے۔
(عرب دنیا کے اس غریب ملک میں)جنگ نے دونوں اطراف کوبھاری نقصان پہنچایا ہے۔صنعاء کا بین الاقوامی ہوائی اڈااور الحدیدہ کی بندرگاہ غیر فعال ہوچکی ہے۔عرب اتحادی افواج کووہاں اترنے والے ہرطیارے کی منظوری دیناہوگی اور لنگر انداز ہونے سے پہلے ہر جہاز کی تلاشی لینا ہوگی۔ حوثیوں اوران کی انتظامیہ کے زیرانتظام علاقوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے، جس میں ملک یا بیرون ملک بہتر زندگی کی تلاش میں لاکھوں یمنی باشندوں کی نقل مکانی شامل ہے۔
دونوں فریقوں نے لڑائی ختم کرنے اورامن بحال کرنے کے لیے بیک وقت اعلانات کیے ہیں۔جنگ کے خاتمے اور معمول کی طرف واپسی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تفصیلی اجلاس منعقد کیے گئے۔اس ضمن میں ایک قابل ذکر پیش رفت اورحیران کن علامت سعودی وفد کا حوثیوں کے زیرقبضہ دارالحکومت صنعاء کا حالیہ دورہ ہے،جو امن کے حصول کے لیے حقیقی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
ان تاریخی پیش رفتوں کی تیز رفتاری کو سعودی عرب اورایران کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے حالیہ معاہدے سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان دیرینہ کشیدگی کے حل کے یمن سمیت پورے خطے میں اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔حالیہ معاہدے نے خاص طورپریمن جنگ اور امن کے امکانات کے حوالے سے بہت سی امیدیں پیدا کردی ہیں۔
یمن میں اس جنگ نے اپنے پیچھے بہت سے چیلنجز چھوڑے ہیں۔ان میں لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی اورمہلک بارودی سرنگوں کی تنصیب شامل ہےجس نے بے گناہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔اس کے علاوہ قریباً ایک دہائی سے تعلیم میں خلل، صحت کی سہولتوں کا فقدان اور متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پرتباہی بھی اس جنگ کے مضراثرات ہیں۔
اگرچہ جنگ کے اختتام سے قبل اس فضول بحث کاخاتمہ نہیں ہوسکتا کہ کون فاتح بن کرابھرا ہے،لیکن یہ تسلیم کرناضروری ہے کہ جنگوں کے تناظر میں ، کوئی حقیقی فاتح نہیں ہوتا۔یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ انتہائی ضروریات سے پیدا ہوئی تھی ، جس نے پرامن طریقوں سے مسائل کا حل ناممکن بنادیاتھا۔
اس جنگ میں ایرانیوں، حوثیوں اور سعودیوں سب کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، لیکن اب انھیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ داخلی سیاسی شرکت اور سعودی عرب پر حملوں کو روکنے میں مضمر ہے اور یہی اس بحران کا مجوزہ حل ہے۔
خاص طور پر ایران یہ سمجھ چکا ہے کہ وہ علاقائی افراتفری کے خطرات سے خودکوالگ تھلگ نہیں کر سکتا اوراسے علاقائی استحکام کو سبوتاژ کرنے کے بجائے اسے محفوظ اورسمتحکم بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔یہ تبھی ممکن ہے جب اس میں شامل تمام فریقوں کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ پرامن حل ممکن ہے۔
ماضی میں مذاکرات کے درجنوں ادوارہوچکے ہیں۔ایک کے بعدایک بین الاقوامی اورعلاقائی مذاکرات کاروں نے متعلقہ دارالحکومتوں کادورہ کیا۔معاہدوں پردست خط ہوئے۔لیکن ان تمام کوششوں کا نتیجہ اس میں شامل ہرشخص کے لیے مثالی امن سے کم تھا۔
اس مرتبہ، پُرامید ہونے کی بہت سی وجوہ ہیں۔یمن میں امن کے اعلان کے ساتھ ساتھ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ،افواج کاانخلا اور دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی جیسے ٹھوس اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔یہ اس اہم خطے میں دیرپاامن کے حصول کی جانب ایک حوصلہ افزاآغاز ہے۔ جنگ کا خاتمہ اور سلامتی و استحکام کا قیام تمام فریقوں کے مفاد میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم عرب روزنامہ الشرق الاوسط میں شائع ہوا تھا۔اس کا اردوترجمہ قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔