پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی ان دنوں بہت کچی پکی اور جھوٹی سچی باتیں جاری ہیں۔ اس میں جنرل باجوہ بھی خبروں اور انکشافات کی زد میں رہتے ہیں اور سابقہ حکومت پر بھی ایک خاص انداز سے الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔
ان موضوعات میں کون سچا ہے اور کون محض مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے ابلاغی مہم جوئی میں مصروف ہے یہ فیصلہ تو وقت گزرنے کے بعد ہی ہو گا۔ کیونکہ وطن عزیز پاکستان میں روایت کچھ ایسی ہی بن چکی ہے کہ چور چور کہنے والے بھی اکثر چوری میں شامل پائےجاتے ہیں۔
جیسا کہ حالیہ دنوں میں ملکی صحافت کے دو جغادری ناموں نے صحافتی میدان کے بڑے بڑے بہادروں کی قبرپر لات ماری ہے اور بر سر عام مودی کے ساتھ باجوہ کے کشمیر پر گٹھ جوڑ کے ہنڈیا غالبا پکنے کے بھی بعد صاف ہو چکنے کے بعد بیچ چوراہے کے پھوڑی ہے۔
یہ باجوہ کے خلاف انکشاف تھا یا قوم کو اس پر راضی کرنے کی ایک اپنی کوشش کا انداز تھا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اس چشم کشا گٹھ جوڑ کے بارے میں بعد از خرابی بسیار انکشاف کرنے والے دو جغادریوں سمیت 25 پاکستانی صحافیوں کی خاموش بہادری، سانپ سونگھی صحافتی کمٹمنٹ اور چپ سادھے قومی وفاداری پر کچھ کہنے سے گریز ہے۔
بس اتنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ یہ اب اتنا عرصہ گذرنے کے بعد 'مخبری' کرنے والے اصحاب صحافت اور بڑے میڈیا پرسنز 'ہمیشہ شریک جرم' ہونے اور رہنے والی مخلوق میں سے ہیں۔ ہاں بعد ازاں وعدہ معاف گواہ بننے کے چکر میں ہوتے ہیں تاکہ خود عوامی غم و غصے سے بچ سکیں اور پوتر و پاک قرار پائیں۔
ہاں تو بات عدالتی اصلاحات کے ایجنڈے کی ہو رہی تھی، وجہ کچھ پاک وطن کی قیادت کی تعریف و توصیف کرنا تھی۔ خبر یہ ہے کہ موجودہ ملکی قیادت نے پاکستان کو اس معاملے میں اسرائیل سے بھی ترقی یافتہ ملک کے طور پر آگے بڑھانے کی کامیاب سعی کر ڈالی ہے۔ عدالتوں کا 'مکو ٹھپنے' کی جو کوشش اسرائیل میں ابھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی ہے اور پاکستان میں اس سلسلے کا اہم مرحلہ کامیابی سے طے کر لیا گیا ہے۔
اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کے نام پر کوششیں نیتن یاہو کے چھٹی بار وزیر اعظم بننے سے پہلے شروع ہوئی تھیں لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے حد یہ ہے کہ ایک طرف انہیں اور ان کی اتحادی جماعتوں کو عدالتوں سے سزا یافتہ سیاسی و مذہبی قائدین کی ایک چال کو سخت عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور گذشتہ سولہ ہفتوں سے زائد عرصے میں ہر ہفتے کی شب تل ابیب سمیت دیگر شہروں میں بھی عوام کا جم غفیر ہوتا ہے۔ تاکہ اعلیٰ عدالتوں کو حکمران اتحاد اور پارلیمان کے ارکان کے خواہشات، ضروریات اور مفادات کے تابع ہونے کا راستہ روکیں۔
دوسری جانب اسرائیل سے باہر یہودی تنظیمیں حکمران اتحاد کی اس خواہش کی ہر سطح پر مزاحمت کر رہی ہیں کہ سزا یافتہ سیاستدانوں کی سزا ختم کرنے اور ان کے کیسز عدالتوں کے دائرہ اختیار سے نکال لے جانے کی چال کامیاب نہ ہونے دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ اور اسرائیلی حکمران اتحاد پاکستان کے حکمران اتحاد سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان کے حکمران اتحاد نے غریبی دعوے کی کٹی پھٹی پارلیمنٹ ہونے کے باوجود ایک نہیں دو بار عدالت عظمیٰ سے متعلق ایک ترمیمی قانون منطور کر لیا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس قانون کو روکنے کی کوشش ناکام بنائی ہے اور بیس اپریل کے بعد سے حکومت کے مطابق یہ ترمیمی قانون اس کے باوجود نافذالعمل ہو چکا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس بارے میں ایک حکم امتناعی جاری کر رکھا تھا۔
صرف یہ نہیں اسرائیلی پارلیمنٹ اب جا کر امکانی طور پر 30 اپریل کو اس ترمی قانون کی منظوری کے لیے پیش کر سکے گی۔ بلکہ یہ بھی ہوا ہے کہ عوامی مزاحمت اور جلسے جلوسوں کے خوف کے باعث اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی عوامی مصروفیات میں کمی کی جا چکی ہے۔
آخری واقعہ اس سلسلے میں یہ سامنے آیا کہ تل ابیب اسرائیلی دارالحکومت میں نیتن یاہو 'جیوش فیڈریشن آف نارتھ امریکہ ' کے پلیٹ فارم سے حاضرین کے سخت رد عمل سے ڈرتے ہوئے خطاب کرنے نہ جا سکے۔ کہ عدالتوں کے مقابل اسرائیلی حکمران اتحاد کی سینہ زوری اور دیدہ دلیری کی ہر جگہ اور ہر سطح پر مذمت جاری ہے اور اسے عدالت و جمہوریت دونوں پر حکمران اتحاد کا سنگین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف پورے دھڑلے کے ساتھ ضلعی انتطامیہ اور صوبائی نگران حکومتوں کے تعاون سے غیر رسمی انتخابی ضرورت کے جلسوں سے خطاب کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ میڈیا کے سامنے عدلاتوں پر گرجتے برستے ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری کی نمائندگی کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری عدالتوں پر چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔
'ماشا ءاللہ' یہ جرات رندانہ پاکستان کے حکمران اتحاد کے اکثر بیشتر قائدین کو اسرائیلی حکمران اتحاد کے وزیروں اور مشیروں سے بھی ممتاز کر رہی ہے۔
اور تو اور انہی عدالتوں سے سزا یافتہ قرار پانے والے اور تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے مسلم لیگ نواز کے قائد بیرون ملک بیٹھ کر بھی نیتن یاہو سے کمال سمجھداری اور ہوشیاری ثابت کرتے ہوئے چوتھی بار وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کو 'کینڈے' میں لانے کے لیے دیدہ دلیری کے ساتھ متحرک ہیں۔ نیتن یاہو کو عدلاتوں کے ساتھ یہ سلوک کرنے کا خیال چھٹی بار وزیر اعظم بننے کے موقع پر آیا ہے۔
یہی حال نواز لیگ کے قائد بے بدل کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا ہے۔ وہ ابھی سے اس ضرورت کو سمجھ چکی ہیں اور پوری قوت کے ساتھ عدلیہ کو درست کرنے میں غرق ہیں۔ اس شعبے میں پاکستان اور پاکستان کے قائدین کی ترقی کی رفتار اگر یہی رہی تو کامل یقین ہے کہ پاکستان میں عدلیہ جلد جسٹس منیر مرحوم کے دور کے نقش پا پر چلتی نہیں بلکہ دوڑتی نظر آئے گی۔
جبکہ اسرائیل جس کے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی انتہا پسندانہ شناخت کے باجود پاکستان کے حکمران اتحاد کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس کی پیروی پر مجبور نظر آئے گا۔ اہم بات یہ ہو گی کہ نیا جسٹس منیر کسی فوجی آمر کے لیے نہیں بلکہ جمہوری حکومتوں کے لیے بھی یکساں طور پر قابل استعمال ہو گا۔ مزید یہ کہ پاکستان کی پارلیمان ان شاء اللہ بھارتی اور اسرائیلی پارلیمان کی طرح کے نگینے سے بھر جائے گی۔