فلسطینیوں کو’مسلح جدوجہد‘نہیں،نئی سیاسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے

ڈیوڈ پاول
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

15مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) پہلی بارفلسطینی ’’نکبہ‘‘ یا تباہی کے موقع پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کرے گی۔

اس اصطلاح سے مراد ایک اندازے کے مطابق 760،000 فلسطینی عرب ہیں جنھوں نے 1948 کی جنگ کے دوران میں اپنے گھربارکھو دیے اور ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینے پرمجبورہوگئے تھےاوریہ سب کچھ اسرائیل کی ریاست کے قیام کے ساتھ ہوا تھا۔

Advertisement

اطلاعات کے مطابق فلسطینی صدرمحمودعباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کریں گے۔محمودعباس نے گذشتہ ماہ کہاتھا کہ فلسطینیوں کے لیے ’’اپنا بیانیہ برقراررکھنےاوراسے دنیا تک پہنچانے کے لیے’’نکبہ کو یاد رکھناترجیح ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ کانکبہ کی یاد منانے کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی جانب سے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے اقدامات کے سلسلے میں تازہ کامیابی ہے۔25 اپریل کو مشرقِ اوسط کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی نے عالمی برادری پرزوردیا تھا کہ وہ مشترکہ طورپر اسرائیل کے خلاف فلسطینی علاقوں پرقبضے کے ردعمل میں پابندیاں عاید کرے۔

انھوں نے کہا:’’اس قبضے کو مہنگا بنائیں اور میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔اسرائیلی عوام خود اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس کاخاتمہ ہو‘‘۔

ایک لحاظ سے فلسطینی اتھارٹی کی بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی مہم نمایاں طورپرکامیاب رہی ہے۔ سنہ 2021 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کے لیے ایک مستقل کمیشن قائم کیا تھا۔اس نے دنیا میں کہیں اورایسا نہیں کیا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کسی بھی دوسرے ملک کےمقابلے میں اسرائیل کے بارے میں زیادہ تنقیدی رپورٹیں جاری کرتی ہیں اور فلسطینی اتھارٹی کے اس مؤقف کی حمایت کرتی ہیں کہ اسرائیل ’’نسلی امتیاز‘‘پرعمل پیرا ہے۔

تاہم، فلسطینی حقوق کے لیے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کے باوجود،غزہ اورمغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے اصل صورت حال صرف بدتر ہوتی جا رہی ہے۔وہاں کے لوگ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے بارے میں تیزی سے مایوس ہورہے ہیں اور ایک طرح سے وہ التباس کا شکار ہیں۔

مارچ 2023 میں فلسطینی مرکزبرائے پالیسی اور سروے ریسرچ (پی ایس آر) کے ایک سروے کے مطابق، مغربی کنارے اورغزہ میں 70 فی صد سے زیادہ فلسطینی اب دوریاستی حل کے خیال کو مسترد کرتے ہیں اورنصف سے زیادہ ’’مسلح جدوجہد‘‘کی طرف واپسی کی حمایت کرتے ہیں۔یہ مایوسی کی ایک حکمتِ عملی ہے جو سیاست پرمکمل طورپراعتماد کھونے کی عکاسی کرتی ہے۔

مغربی کنارے اورغزہ میں سنہ1970 کی دہائی کی انقلابی تحریکوں کی ایک اصطلاح’’مسلح جدوجہد‘‘ پہلے ہی جاری ہے مگراس کے اثرات تباہ کن ہیں۔ جنین اور مغربی کنارے کے دیگر قصبوں میں لائنزدین جیسے نئے بنیاد پرست گروہ ابھر کرسامنے آئے ہیں جو فلسطینی اتھارٹی کے سکیورٹی کنٹرول میں ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں(آبادکاروں) دونوں کے خلاف فلسطینیوں کی طرف سے قریباً روزانہ چاقوزنی، فائرنگ اور کارچڑھانے یا توڑپھوڑ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

دریں اثناء فلسطینی قصبوں پراسرائیلی فوج کے حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مسلح جھڑپوں کے میں ایک سوسے زیادہ فلسطینی، مسلح جنگجو اورعام شہری مارے جاچکے ہیں۔تشدد کااس طرح کا مکروہ چکر فلسطینیوں کے امن اور سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

واحد پارٹی ہونے کے ناتے یہ فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں ہیں جواسرائیلی قبضے کا فعال طور پرمقابلہ کرتی نظرآتی ہیں، اگرچہ فضول کارروائیوں کے ساتھ،مگران گروہوں کو کچھ قبولیت عامہ اوراحترام حاصل ہے مگر یہ سب فلسطینی اتھارٹی کی قیمت پر ہے، جسے بڑے پیمانے پرمالی طورپربدعنوان، غیرمؤثر اور جمہوریت سے عاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس نے گذشتہ 17 سال کے دوران میں انتخابات کرانے سے انکارکیاہے۔اس کے باوجود ’’مسلح جدوجہد‘‘قبضے کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکی ہے۔ بالکل اس کے برعکس، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی تشدد پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے باقاعدگی سےدائیں بازو کی (انتہاپسند)جماعتوں کوووٹ دیتے ہیں، جوانھیں تحفظ مہیّاکرنے کاوعدہ کرتی ہیں۔

اس وقت اسرائیل میں اس کی تاریخ کی سب سے دائیں بازوکی حکومت ہے۔اس کے وزراء نظریاتی طور پر پورے مغربی کنارے پر کنٹرول برقرار رکھنے اور بے لگام بستیوں کی تعمیرکے لیے پرعزم ہیں۔قبضے کے خاتمے کی وکالت کرنے والی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے سے کہیں زیادہ دورہیں اور اسرائیلی امن کی تحریک دم توڑ رہی ہے۔

فلسطینیوں کے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے،ان کے رہنماؤں کوایک نیا سیاسی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو حقِ خودارادیت کے لیے ایک ایسا منطقی اورمربوط راستہ تیارکرے جس پر لوگ یقین کرسکیں۔خاص طور پرفلسطینی اتھارٹی کی موجودہ عمررسیدہ قیادت اورغزہ کے لیے الگ الگ حکمرانی کے تحت اس کو تیارکرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ وہاں بھی حماس یاجہادِاسلامی کی جانب سے وقفے وقفے سے میزائل حملے اوراس کے جواب میں اسرائیل کے فضائی حملے طویل عرصے سے مشکلات کا شکارغزہ کے باسیوں کے لیے مزید مصائب اور مسلسل ناکابندی کاسبب بنتے ہیں۔

لہٰذا فلسطینی قیادت کی نئی نسل کوایسی حکمتِ عملی اختیارکرناہوگی جو اسرائیلی معاشرے میں رائے عامہ پراثرانداز ہوسکے۔یہ اقوام متحدہ میں ہائی پروفائل اجلاس نہیں ہیں جواسرائیل کو مذاکرات کی میزپر لائیں گے بلکہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی ہے جو اسرائیلیوں کوقائل کرسکتی ہے کہ ان کا مستقبل اپنے فلسطینی ہمسایوں کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنے میں مضمرہے، نہ کہ انھیں مطیع رکھنے پرانحصار کرنے میں۔انتہاپسند گروہوں اور بیرون ملک فلسطینیوں کے بہت سے جھوٹے دوستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہمت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن جیسا کہ فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی نے خود کہا ہے کہ یہ اسرائیلی عوام ہی ہیں جو بالآخر قبضے کاخاتمہ کریں گے۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں