پاکستان بھی لاکھوں شہداء کی یاد گار ہے!

نجم الحسن عارف
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ملک و قوم کو درپیش سنگین ترین مسائل اور چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ قابل اجمیری کا یہ شعر یاد آنے لگا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

Advertisement

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

قابل اجمیری 1931 میں پیدا ہوئے اور محض 31 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، مگر جواں سال ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی حقیقت اس چھوٹی بحر کے شعر میں بیان کر گئے۔ نوجوانوں کی بات عام طور پر کم سنی جاتی ہے۔ مگر شیخ سعدی نے میرے ایسے بہت سے سفید ریشوں کو اس الجھاوے سے اس طرح نکال دیا کہ ' بزرگی بہ عقل است نہ بسال ' ۔ اس لیے قابل اجمیری کی بات غور کرنے والوں کے لیے بڑے کام کی ہے۔

9 مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ردعمل میں کی گئی توڑ پھوڑ پر پاکستانی کے لیے تشویش انگیز تھی اور تشویش انگیز ہے۔ اس پر قانون کا حرکت میں آنا بھی فطری سی بات ہو گی۔ لہذا کور کمانڈرز کی خصوصی کانفرنس کے بعد اس بارے میں سامنے آنے والی پریس ریلیز کے مندرجات کا احترام ہے۔ مگر مسائل اور چیلنجوں کی دلدل میں پھنسے ملک کے اہم ترین ادارے کا اس سمت میں بہت غصے کے ساتھ آگے بڑھنا ملک و قوم ہی نہیں پاک فوج کے لیے بھی خدا نخواستہ ہی ایک نئی دلدل میں دھنسنے کا سبب بن سکتا ہے۔

مسلح افواج کے بارے میں ناراضی اور نفرت کو عام کرنے کی مہم پرانی ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ اس ناراضی کا ایک بڑا حوالہ ایوب خان کے دور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کے دور اقتدار کا جس طرح خاتمہ ہوا اس میں عوامی ناراضی اور اسے تقویت دینے والے کردار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اس کی وجوہات میں ایوب خان اور ان کے اقتدار پسند ہونے کا بھی دخل تھا کہ وہ پہلے مارشل لاء کے مسلط کرنے والے تھے۔ ان کے دور سے آج تک سیاسی جماعتوں، ان کی قیادتوں اور کارکنوں میں فوج کے بارے میں مخصوص وجوہ سے پیدا ہونے والی سوچ آج پہلے سے شدید تر ہو چکی ہے۔ بد قسمتی اس سوچ کا دائرہ کسی ایک جماعت تک محدود بھی نہیں ہے۔

1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان اور اس وقت کی فوجی و سیاسی قیادت کے بارے میں ناراضی میں اضافے کا سبب بنا۔ پھر 1977، 1979، 1999، 2007، 2001، 2017 اور 2022 کے سال کہیں درست طور پر اور کبھی غلط طور پر فوجی قیادت پر فائز افراد کے بارے میں نفرت بڑھانے کے واقعات کے ساتھ سامنے آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فوج کے خلاف نفرتی مہم گہری اور وسیع ہوتی گئی۔ بعض اہم شخصیات کی زمان و مکان اور وجوہ کے فرق کے ساتھ ہونے والی غیر فطری اموات بھی اس سلسلے میں اضافے کا باعث بنے۔

منظور پشتین کے زیر قیادت جو نعرے لگتے رہے اس کا کبھی اس سے پہلے تصور بھی کیا گیا تھا، اس نعرے کو سیاسی جماعتوں نے اپنے مقاصد کے لیے طاقت دینے کی حکمت عملی بنائی۔ پھر اہم سیاسی جماعتوں کے منجھے ہوئے اور جغادری سیاستدانوں نے اپنے اپنے انداز سے میمو کیس، اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی۔ گوجرانوالہ کا مشہور زمانہ جلسہ اور تقریر، 'خطرے ناک' ہوجانے کی دھمکی، جنرل باجوہ کا چھ سالہ خالص سیاسی انداز میں گذارا گیا دور اور یہ معاملہ ایسا چلا کہ تھمنے میں آنے کا نہیں لگ رہا۔ سوشل میڈیا کی بھر مار اور الیکٹرانک میڈیا کا ہتھیار صحافتی تجربے اور قومی سوچ کے اعتبار سے کسی قدر کمزور پس منظر کے حاملین کے ہاتھ آجانا بھی اہم رہا۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس ناراضی اور نفرت کی وجوہات ہر جگہ یکطرفہ یا کمزور نہیں تھیں۔ حتیٰ کہ خوگر حمد بھی بجا طور پر گلہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ جو لوگ اس ملک میں فوج کے فطری اتحادی تھے انہیں بھی کھو دیا گیا۔

علاوہ ازیں غیر ملکی دشمنوں کا ایجنڈا، سازشیں بھی کردار ادا کرتی رہیں۔ ففتھ جنریشن وار بھی اس سلسلے کو بڑھاوا دنے میں اہم رہی اور کہا جانا چاہیے کہ نتیجہ یہ نکلا کہ نوبت اس سطح پر پہنچ گئی کہ 9 مئی کے واقعات رونما ہوئے۔ اس میں جہاں فوج کے خلاف پراپیگنڈا کرنےوالے کہیں کہیں استعمال ہو رہے تھے، وہیں فوج نے بھی اپنی پالیسی اور حکمت عملی کا جائزہ شاید اس طرح نہیں لیا جس سے حالات میں بہتری کی سبیل نکلتی۔ یہ فوج کو درپیش چیلنجوں کی سنگینی کے باعث ممکن نہ ہوا، 'ان ٹیک' کے معاملات باعث بنے یا فوج کی تربیت و تدبیر کے شعبوں کی ترجیحات میں اس جانب توجہ کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا کم از کم میرے لیے مشکل ہے۔ کہیں کوئی رخنہ تو ضرور آیا کہ اعلیٰ ترین قیادت کے' کنڈکٹ' پر سوال اٹھنے کا جواز بنتا رہا۔

تازہ واقعہ 9 مئی کو پیش آیا ہے۔ اس واقعے کا ایک فطری اور فوری رد عمل تو وہی ہو سکتا ہے جو آج کل گرفتاریوں کی صورت سامنے آرہا ہے یا کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد سامنے آیا ہے۔ اگر یہ معاملہ 'فئیر ٹرائل' کے زمرے میں رہے تو اس کا جواز یقیناً موجود ہے۔ اگرچہ فوجی عدالتوں میں غیر فوجی شہریوں کے خلاف مقدمات چلائے جانے پر دونوں طرح کی آراء موجود ہیں۔ دونوں طرف قوی دلائل دستیاب ہیں۔ تاہم راقم کی رائے میں اس طے شدہ اور لگے بندھے انداز سے سوچنے یا اسی طرح آگے بڑھتے رہنے کے بجائے مختلف 'اپروچ' کے ساتھ معاملات سے نمٹنا ملک و قوم اور فوج کے حق میں زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شہداء کی یاد گاروں کی ایک خاص عزت، تقدس اور اہمیت ہے۔ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اطلاعات بھی ناقابل قبول ہیں۔ لیکن اگر ذرا اس پہلو سے دیکھا جائے کہ پی ٹی آئی کے نوجوان اور جوشیلے کارکنوں کی یہ حرکت ملک دشمنی یا غداری کی کسی منفی اور مکروہ جذبے کے تحت نہیں ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کارکنوں کا یہ رد عمل اور غصے کا اظہار ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے جذبے کے تابع بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ ہرگز پسندیدہ فعل بھی نہیں تھا۔ ان واقعات میں جہاں سیاسی کارکن، سیاسی قیادت قصور وار ہے وہیں ذمہ داری کسی اور پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کہ آخر یہ سب کچھ ہوتا رہا اور کسی نے انہیں ان مقامات تک پہنچنے سے پہلے روکا ہی نہیں۔ اس سلسلے میں اگر انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں تھیں تو بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ اب حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر نے کہا ہے کہ کہ پچھلے آٹھ ماہ سے اس طرح کی تیاری کی جارہی تھی۔ یہ دعویٰ درست ہے تو بہت تعجب انگیز ہے کہ متعلقہ ادارے پولیس اور دیگران اس سارے عرصے میں کیا کرتے رہے؟

ایک مختلف اور غیر روایتی 'اپروچ' کے ساتھ ڈیل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے چھ سالہ دور قیادت کے بعد فوج کو جس چیلنجنگ حالت میں نئی قیادت کے سپرد کیا ہے۔ اس کی ماضی میں شاید مثال نہیں ملتی۔ مشرقی و مغربی سرحدوں پر درپیش چیلنج، دہشت گردی کی پھیلتی ہوئی لہر، عالمی اور علاقائی سطح پر دستک دینے والی تبدیلیاں۔ ملک پہلے ہی معاشی و سیاسی عدم استحکام کی بد ترین دلدل میں ہے۔ اس لیے ایک نئی دلدل کی طرف ملک کے عسکری ادارے اور ملک کو دھکیلنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ملک میں اصل سیاسی قیادت کا ایوانوں سے باہر ہونا ایک اور اہم مسئلہ ہے۔ اس لیے پورے ملک کے نوجوانوں اور خواتین میں مقبولیت رکھنے والی جماعت کے رہنماوں یا کارکنوں کے بارے میں محض رد عمل میں فیصلے کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر پائی جانے والی 'پولرائزیشن' کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کے مورال اور شہدا کی یاد گاروں کے جذباتی حوالے بھی موجود ہیں۔ تاہم یہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مملکت خداد بجائے خود لاکھوں شہدا کی ایک یاد گار ہے۔ یہ لاکھوں ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانی کی بھی یاد گار ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے تو اس لاکھوں شہدا کی اجتماعی یاد گار اور اپنے آبا و اجداد سمیت اقبال، قائد کی اس نشانی کا پورا ایک حصہ گنوا دیا ہے۔ اب بھی اپنے مفاد کی قربان گاہ پاک وطن کے مفادات ہر روز ذبح کر رہے ہیں۔ ہم تووہ بدبخت ہیں جو بانی پاکستان کی آخری قیام گاہ 'زیارت ریذیڈنسی' کی بھی حفاظت نہ کر سکے تھے۔ ان کی کراچی میں آبائی رہائش گاہ کو سیلابی پانی سے بچانے میں اب تک ہر برسات میں ناکام ہوتے ہیں۔

بانی پاکستان کے معتمد ساتھی اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کو آج تک سامنے نہیں لا سکے۔ پاک فوج کےعظیم جرنیل ضیا ءالحق شہید کے ساتھ متعدد قیمتی جانیں ایک طیارے کے کریش ہوجانے سے چلی گئیں۔ مگر ہم اس بارے میں بھی بے بس رہے کہ سانحے کے ذمہ دار کو بے نقاب کریں۔ بحیثیت قوم کے ہم تو آج تک اپنی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے نہیں چھڑا سکے۔ یقینا شہ رگ پاکستان بھی بےشمار شہداء کی یادگار ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد سے نئے نئے انکشافات کے بعد حالت یہ ہے کہ بھارت گروپ 20 کا اجلاس سری نگر میں بلا رہا ہے اور صم بکم عمی بیٹھے ہیں اور اگر کوئی کوشش و کاوش ہے تو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر اور کشمیری بھائیوں کے لیے نہیں اپنے اپنے مفادات کے لیے ملک کے اندر باہمی لڑائیوں کے لیے ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ فوجی و سول قیادت اجتماعی دانش و تدبر کو بروئے کار لائے۔ کسی فرد، گروہ کےغصے یا مفاد کو پیش نظر رکھ کر نہیں مجموعی قومی مفاد کے تابع فیصلے کرے۔ سیاسی ومعاشی بد حالی کے نکتہ عروج سے نیچے آنے کے لیے قوم کو ایک صفحے پر لائے اور اس کے لیے نئے عام انتخابات کا منصفانہ انعقاد وسیع تر قومی مشاورت کے ساتھ کرنے کا اعلان کرے۔ تاکہ ملک میں جدل کی فضا کو روک کر ایک مثبت اور بہتر رخ دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اگر اتفاق رائے پیدا ہو سکے تو متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کرنے کے لیے ضروری ترامیم کی جائیں۔

عام سیاسی کارکنوں کے لیے فوجی قیادت کو آگے بڑھ کر معافی تلافی کا اعلان کرے۔ ہاں ضروری سمجھے تو اسلحہ سے حملہ کرنے والوں کو ایک منصفانہ ٹرائل سے ضرور گذارے، مگر یہ پتھر اور غلیل والے تو مسلح افراد میں شامل نہ کیے جائیں۔ ان نوجوانوں کو عسکری اور سیاسی قیادتیں اپنے ملک کے مستقبل کے طور پر دیکھیں، دشمن کے طور پر نہیں۔ یہ اپنے ہیں۔ ان کی غلط فہمیاں دور کی جائیں اور انہیں قومی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر مائل کیا جائے۔ یہ پشتو بولتے ہوں یا پنجابی، بلوچی یا سندھی اور اردو سب پاکستان کے بیٹے ہیں، سب قیمتی ہیں۔ نوجوانوں سے جذبات میں آکر غلطی کا ہو جانا غیر معمولی بات نہیں۔ ویسے بھی پارلیمان سے لے کر 'ٹی وی ٹاک شوز' تک اور 'ٹی وی ٹاک شوز' سے 'وی لاگز' تک ہم نئی نسل کو لڑائی جھگڑے کے انداز میں چیخنا، چلانا، چنگھاڑنا، دوسروں کو گالی دینا، الزام لگانا اور نفرت و گروہی تعصب ہی تو سکھا رہے ہیں۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں