پیرس حملہ۔ مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
9 منٹس read

پیرس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین کے دفتر پر حملے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ فرانس اور مغربی میڈیا واقعہ سے سبق حاصل کر کے ایسے اقدامات کرے گا جس سے آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہو سکے لیکن گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین کی حمایت اور نام نہاد ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے حق میں پیرس میں نکالے گئے ’’یکجہتی مارچ‘‘ میں کچھ اسلامی ممالک کے سربراہان سمیت 44 ممالک کے سربراہان مملکت کی شرکت سے فرانسیسی حکومت اور مغربی میڈیا کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کے بعد ’’چارلی ایبڈو‘‘ نے حکومتی سرپرستی میں اپنی حالیہ اشاعت میں ایک بار پھر توہین آمیز خاکے شائع کر کے گستاخی کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ میگزین کو اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ ’’چارلی ایبڈو‘‘ کے مذکورہ مکروہ فعل سے نہ صرف یکجہتی مارچ میں شریک اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ دنیا کے ایک ارب 70 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی جس کے بعد پاکستان، سعودی عرب، افغانستان، ایران، مصر، ترکی اور الجزائر سمیت پورے عالم اسلام میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کو متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد منظور کی جس میں توہین آمیز خاکوں کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانیت کے خلاف سازش قرار دیا گیا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے تمام اسلامی ممالک کی پارلیمانوں پر زور دیا کہ وہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی اپنے مذمتی بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اشتعال انگیز مواد کی اشاعت پر پابندی عائد کی جائے جبکہ پاکستان کی مختلف مذہبی جماعتوں کی کال پر جمعہ کو ملک بھر میں ’’یوم مذمت‘‘ منایا گیا اور مظاہرے کئے گئے۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں ہوا جس میں 8 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف نائیجریا میں بھرپور احتجاج کیا گیا جس میں 10 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ مشتعل افراد نے متعدد گرجا گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا۔

گستاخانہ خاکوں پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے سخت بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے مغرب کو متنبہ کیا کہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور ہر حال میں ناموس رسالت کا تحفظ کیا جائے گا۔

پیرس حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فرانس میں ریڈ الرٹ کا نفاذ کر کے مختلف شہروں میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد پولیس و فوجی اہلکار تعینات کردیئے گئے ہیں، اسی طرح بلجیئم میں بھی فوج کو طلب کرلیا گیا ہے جبکہ یورپ کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس کی پیش گوئی میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کی تھی۔ فرانس اور بلجیئم میں دہشت گردی کے نام پر سینکڑوں مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا ہےجن میں سے بلجیئم میں 2 مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے جس سے وہاں مقیم مسلمانوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جرمنی کے شہر ڈسٹن میں ’’پگیتا موومنٹ‘‘ کی جانب سے ہر ہفتے اسلام مخالف ریلی نکالی جا رہی ہے تاہم گزشتہ دنوں نکالی جانے والی 13 ویں ریلی قیادت پر دہشت گردوں کے حملے کے پیش نظر ملتوی کر دی گئی۔

موجودہ کشیدہ صورتحال میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا بیان قابل ستائش ہے جنہوں نے فرانسیسی جریدے میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ آزادی اظہار رائے کی حمایت کی ہے لیکن آزادی اظہار رائے کی بھی کچھ حدود ہونا چاہئے۔ پوپ کے بقول کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا اچھا فعل نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص میری ماں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرے تو اُسے میرا گھونسا کھانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پوپ کے مذکورہ بیان پر عیسائی مذہب کے ماننے والے کچھ لوگ شاید ناراض نظر آتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پوپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ’’وہ پوپ کے بیان سے متفق نہیں کیونکہ میڈیا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کا مواد شائع کر سکتا ہے، چاہے وہ توہین آمیز ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

موجودہ صورتحال میں قابل افسوس بات یہ ہے کہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے اب تک کوئی سخت موقف یا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے اور تنظیم کے سیکریٹری جنرل عیاد مدنی صرف یہ اعلان کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں کہ او آئی سی، چارلی ایبڈو کے خلاف فرانسیسی و یورپی عدالتوں میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے حالانکہ دنیا یہ جانتی ہے کہ ان عدالتوں سے مسلمانوں کو انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ او آئی سی ہنگامی اجلاس طلب کرتی جس میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان توہین آمیز خاکوں کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرتے اور انبیائے کرام و مقدس کتابوں کی توہین کے خلاف قانون سازی کرنے کے لئے عالمی طاقتوں پر دبائو ڈالتے جس سے دنیا کو یہ پیغام ملتا کہ ناموس رسالت پر تمام اسلامی ممالک کے عوام متحد ہیں جو حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کسی صورت بھی برداشت نہیں کرسکتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ ’’چارلی ایبڈو‘‘ پر حملے کے بعد یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ دفتر پر حملہ امریکی و اسرائیلی ایجنسیوں کی مشترکہ کارروائی ہے جس کا اعتراف فرانس کی سیاسی جماعت فرنٹ نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ جین میری لی پین نے بھی کیا ہے۔

لی پین کے بقول اُن کے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پیرس حملہ امریکی و اسرائیلی ایجنسیوں کی مشترکہ سازش ہے جس کا مقصد اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج پیدا کرکے دنیا کو جنگ کی طرف دھکیلنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اداروں کا یہ موقف ناقابل فہم اور مضحکہ خیز ہے کہ حملہ آوروں میں سے ایک کا شناختی کارڈ اس کی گاڑی سے برآمد ہوا کیونکہ 9/11 کے وقت بھی یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حملے میں ملوث ایک ہائی جیکر کا پاسپورٹ جائے وقوع سے ملا تھا۔ لی پین کے بقول حقیقت یہ ہے کہ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کئے جانے کے بعد امریکہ اور اسرائیل، فرانس سے ناخوش تھے اور مذکورہ کارروائی اسی کا نتیجہ ہے۔فرانسیسی میگزین کی جانب سے ایک بار پھر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت مذہب اسلام کے خلاف کھلی دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے جس نے مغرب کی جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا ہے، ایسا کرنے کا مقصد مسلمانوں میں اشتعال پھیلانا اور ان میں غیرت ایمانی ختم کرنا ہے مگر مغرب کی یہ سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ توہین آمیز خاکوں کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد کی منظوری اور وزیراعظم کا مذمتی بیان قابل تعریف ہے لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مذاہب، عقائد اور عبادات کے تحفظ کے لئے عالمی سطح پر آواز بلند کرے اور او آئی سی سے اجلاس بلانے کا مطالبہ کرے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانسیسی جریدہ توہین آمیز خاکے شائع کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کا مرتکب ہوا ہے جس پر اسے معافی مانگنا چاہئے کیونکہ ان خاکوں کی اشاعت نے مختلف مذاہب کو باہم متصادم کردیا ہے اور مغرب کا یہ اسلام دشمن متعصبانہ رویہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے۔ اسلام دشمنوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ ناموس رسالت، مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے جس کے لئے وہ اپنی جان نچھاور کرنا اعزاز اور سعادت سمجھتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں