اخوان المسلمون کے رہنماوں کیلیے ترکی چشم براہ
سات اخوان رہنماوں کو قطری حکومت نے قطر چھوڑنے کا کہہ دیا
ترکی کی اعلی ذمہ دار شخصیات نے اشارہ دیا ہے کہ قطر سے نکالے گئے اخوان المسلمون کے رہنماوں اور ارکان کو ترکی میں خوش آمدید کہا جائے گا۔
اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ پہلے منتخب مصری صدر محمد مرسی کی پچھلے سال 3 جولائی کو فوج کے ہاتھوں برطرفی کے بعد ماہ دسمبر میں اخوان المسلمون پر بھی پابندی عاید کر دی گئی تھی۔
اب مرسی کو برطرف کرنے والے جنرل عبدالفتاح السیسی کے صدر بننے کے بعد اخوان المسلمون کے لیے قطر میں بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ قطری حکومت قبل ازیں اخوان کی حمایت کے لیے سو رہی ہے۔
لیکن اب متحدہ عرب امارات کے دباو کے نتیجے میں قطری حکومت کے لیے اخوان کے لوگوں کو اپنے ہاں قیام کرانا مشکل ہو گیا ہے۔
اس صورت حال میں لندن میں مقیم ایک اخوان لیڈر نے ہفتے کے روز انکشاف کیا تھا کہ قطر نے سات سینئیر اخوانی رہنماوں کو قطر چھوڑ کر چلے جانے کے لیے کہہ دیا ہے۔
ترکی کی اعلی شخصیات نے اس وجہ سے اخوان رہنماوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دینے اور ان کا خیر مقدم کرنے کا کہا ہے۔
دریں اثناء ترک ٹی وی نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کے قطر کے سرکاری دورے سے واپس آ جانے کا بتایا ہے۔
قبل ازیں خطے میں صرف ترکی اور قطر دو ایسے ملک رہے ہیں جو مرسی کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے بعد بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب قطر کے موقف میں بھی کمزوری آ گئی ہے۔
اس کے مقابلے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نئے مصری حکمران جنرل ریٹائرڈ عبدالفتاح السیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ممالک اخوان المسلمون کو بادشاہتوں کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔
اخوان المسلمون کے ستر سال سے زائد عمر کے حامل مرشد عام محمد بدیع کو پیر کے روز ایک مصری عدالت نے تیسری بار سزائے عمر قید سنائی ہے۔ دو مرتبہ پہلے بھی انہیں اپنے سینئیر رفقاء کے ساتھ عمر قید سنائی جا چکی ہے۔