فلسطین اسرائیل تنازع

فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کا سلسلہ بند ہونا چاہیے: اقوام متحدہ ماہرین

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
3 منٹس read

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے پیر کے روز عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی رہائش گاہوں کے’منظم اور دانستہ‘انہدام میں ڈرامائی اضافے کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔

تین آزاد ماہرین نے ایک بیان میں کہا کہ صرف جنوری کے مہینے میں اسرائیلی حکام نے مبیّنہ طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں 38 آبادیوں میں 132 فلسطینی مکانات یا ڈھانچے مسمار کیے۔ان میں 34 رہائشی ڈھانچے بھی شامل ہیں۔

فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق، مناسب رہائش کے حق اور اندرونی طور پر بے گھرہونے والے افراد کے حقوق کے لیے خصوصی نمائندے نے کہا کہ جنوری 2022 کے مقابلے میں مسماری کی کارروائیوں میں 135 فی صد اضافہ ہوا ہے۔یہ اعدادوشماراقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امورکے فراہم کردہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے گھروں کو منظم طریقے سے مسمار کرنا، غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے دینے سے منظم طورپرانکاران کے’’مکانوں کے انہدام‘‘کے مترادف ہے۔

سال 2022 کے آخرمیں مکانات کے حق سے متعلق خصوصی نمائندے بالا کرشنن راج گوپال نے مطالبہ کیا تھا کہ پرتشدد تنازعات میں شہریوں کی رہائش گاہوں کی بڑے پیمانے پر اورمن مانی تباہی کو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جُرم تسلیم کیا جائے۔

ماہرین نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ فلسطینی عوام کے گھروں، اسکولوں، معاش اور پانی کے ذرائع پر براہ راست حملے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو سلب کرنے اور ان کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کی اسرائیل کی کوششوں کے سواکچھ نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مقرر کردہ ماہرین نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے مسافریطامیں واقع دیہات کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا۔

انھوں نے خبردارکیا کہ وہاں موجود 1100 سے زیادہ فلسطینی باشندوں کو’’جبری بے دخلی، من مانی نقل مکانی اور ان کے گھروں، معاش، پانی اور صفائی ستھرائی کے ڈھانچوں کی مسماری‘‘کا خطرہ لاحق ہے۔

انھوں نے کہا کہ فلسطینی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کے اسرائیل کے ہتھکنڈوں کی کوئی حد نظر نہیں آتی ہے۔مقبوضہ بیت المقدس (مشرقی یروشلم) میں بھی دسیوں فلسطینی خاندانوں کوجبری بے دخلی اور نقل مکانی کے خطرات کا سامنا ہے۔اس کی وجہ امتیازی علاقہ بندی اور منصوبہ بندی کانظام ہے جو اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے حق میں ہیں۔ صہیونی ریاست کا یہ عمل بین الاقوامی قانون کے تحت غیرقانونی اور جنگی جرم کے مترادف ہے۔

ماہرین کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ مشرقی یروشلم میں حملوں کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں نو یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دے گی۔

مغربی کنارے قائم اسرائیل کی غیرقانونی بستیوں میں 475,000 سے زیادہ یہودی آباد ہیں، جبکہ 28 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی رہتے ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں