عراقی حکومت کا اسرائیلی خاتون دانشور کے مبینہ اغواء کی تحقیقات کا اعلان

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
4 منٹس read

عراقی حکومت نے ملک میں مبینہ طور پر ایک شیعہ گروپ کے ہاتھوں اغوا کی گئی روسی نژاد اسرائیلی خاتون ماہر تعلیم کے اغوا کے اسرائیلی دعوے کی تحقیقات شروع کی ہیں۔

دوسری طرف عراق کے ایک ایران نواز مسلح گروپ ’کتائب حزب اللہ‘ نے اسرائیلی حکومت کے اس دعوے کو رد کر دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی خاتون الیزبتھ تسرکوو کے اغوا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

بغداد حکومت کے ترجمان باسم العوادی کے مطابق حکومت نے ملک میں ایک اسرائیلی-روسی خاتون کے اغوا سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آیا کسی اسرائیلی خاتون کو ایران نواز کسی گروپ کی طرف سے اغوا کیاگیا ہے یا نہیں۔

قبل ازیں اسرائیل نے الزام عاید کیا تھا کہ عراق میں ایک ایران نواز مسلح شیعہ گروپ نے اس کی ایک شہری کو اغواء کر رکھا ہے۔

جمعرات کی رات ایک عراقی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ترجمان العوادی نے اسرائیلی شہری الزبتھ تسرکوو کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ "عراقی حکومت اس حوالے سے سرکاری سطح پر تحقیقات کر رہی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "چونکہ یہ مسئلہ فی الحال مشکوک ہے۔ اس لیے اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ عراقی حکومت اپنی سرکاری تحقیقات مکمل کر کے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتی۔"

اسرائیل کا دعویٰ اور کتائب حزب اللہ تردید

درایں اثناء عراق کے ایران نواز مسلح دھڑے کتائب حزب اللہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی روسی ماہر تعلیم کی گمشدگی میں ملوث نہیں ہے۔ یاد رہے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ گروپ نے کہا کہ وہ ملک میں "صیہونی یرغمالی یا یرغمالیوں" سے متعلق جاننے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے بدھ کے روز کتائب حزب اللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے الزبتھ تسرکوو کو پکڑ رکھا ہے۔ تسرکوو بغداد میں مارچ 2023 سے لاپتہ ہیں۔ کتائب حزب اللہ عراق کے حشد الشعبی کا ایک طاقتور دھڑا ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ سابق نیم فوجی دستوں کو حالیہ برسوں میں عراقی سکیورٹی فورسز میں ضم کیا گیا تھا۔

اسرائیلی الزام پر گروپ نے جمعرات کو پہلا رد عمل دیا۔ گروپ کے ترجمان ابو علی العسکری نے ٹیلی گرام پر ایک مبہم پریس ریلیز جاری کی۔ اس میں کہا گیا کہ صہیونی وزیر اعظم کی جانب سے عراق میں اسرائیلی سکیورٹی ایجنٹ کی یرغمالی کی موجودگی کا اعتراف ایک انتہائی خطرناک اشارہ ہے۔ ابو علی العسکری نے مزید کہا کہ متعلقہ سکیورٹی اداروں کو اس ادارے سے منسلک نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنا چاہیے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔

عراق میں تعینات ایک مغربی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تسرکوو دسمبر 2022 کے آغاز میں بغداد پہنچی تھیں۔ تسرکوو کی ویب سائٹ نے کہا کہ وہ نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی سے منسلک تھیں اور ساتھ ہی القدس میں قائم ایک اسرائیلی- فلسطینی تھنک ٹینک فورم فار ریجنل تھنکنگ میں ریسرچ فیلو ہیں۔

تسرکوو سے ملنے والے کئی صحافیوں کے مطابق انہوں نے خطے پر اپنی تحقیق کے ایک حصے کے طور پر ایران نواز دھڑوں اور عراقی شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کی تحریک پر توجہ مرکوز کی تھی۔

مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں