افغانستان کے طالبان مزاحمت کاروں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کا جنوری کے اختتام تک امریکا سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے لیے سمجھوتا طے پاجائے گا اور وہ اس ڈیل پر دست خط سے قبل فوجی کارروائیوں میں کمی کے لیے تیار ہیں۔
یہ بات طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے پاکستان کے موقرانگریزی روزنامہ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔طالبان کے نمایندوں اور امریکا کے درمیان اسی ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن بات چیت بحال ہوئی ہے اور اس میں امن سمجھوتے پر دست خط کے لیے تاریخ پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ ’’ ہم نے امریکا کے ساتھ امن سمجھوتے پر دست خط سے قبل فوجی کارروائیوں میں کمی سے اتفاق کیا ہے۔اس کے تحت افغان فورسز کے خلاف اہدافی حملے بھی روک دیے جائیں گے اور اب یہ ( سمجھوتے پر دست خط) دنوں کا معاملہ رہ گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ امریکا گذشتہ کئی ماہ سے طالبان جنگجوؤں پر تشدد میں کمی کے لیے زور دے رہا تھا۔اس نے افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے سمجھوتے پر دست خط کے لیے یہ شرط عاید کی تھی کہ طالبان جنگی کارروائیاں روک دیں۔اس کا کہنا تھا کہ اگر طالبان سکیورٹی کی ضمانت دیتے ہیں تو اس صورت ہی میں جنگ زدہ ملک سے غیرملکی فوجی واپس بلائے جاسکتے ہیں۔
طالبان اور امریکا گذشتہ ایک سال سے امن بات چیت کررہے ہیں۔ وہ ستمبر 2019ء میں ایک امن سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں پر جاری حملوں کے پیش نظراچانک امن عمل ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
فریقین کے درمیان دسمبر2019ء میں قطر میں امن بات چیت دوبارہ شروع ہوئی تھی لیکن افغانستان میں امریکا کے زیرانتظام بگرام میں فوجی اڈے پر ایک حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ مذاکرات معطل کر دیے گئے تھے۔
اب امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی امن سمجھوتا طے پاتا ہے تو اس کے دو اہم نکات یہ ہوں گے : ایک ،افغانستان سے امریکا کا انخلا اور دوسرا یہ کہ طالبان مزاحمت کار ملک میں جہادیوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں کریں گے۔اس سمجھوتے کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حتمی منظوری دیں گے۔
اس سے طالبان کی صدراشرف غنی کی حکومت سے براہ راست مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہوگی۔واضح رہے کہ طالبان کابل میں اس حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکاری ہیں۔