’’سابق ایرانی جج کی رومانیا میں پُراسرار موت کیا اندھا قتل ہے؟‘‘

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایران کے ایک اعلیٰ عہدہ دار نے رومانیا میں سابق جج غلام رضا منصوری کی اچانک اور پُراسرار موت کو ’’قتل‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بخارسٹ کو اس کی مکمل ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔

غلام رضا منصوری پر تہران میں بدعنوانیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ وہ رومانوی دارالحکومت بخارسٹ میں جمعہ کو ایک ہوٹل کے باہر مردہ پائے گئے ہیں۔انھیں مبیّنہ طور اونچائی سے گرایا گیا ہے جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ہے یا انھوں نے کھڑکی سے کُود کر خود کشی کی ہے لیکن ابھی ان کی موت کی وجوہ واضح نہیں ہیں۔

Advertisement

ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ اور اب مصالحتی کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ رومانیا کی حکومت کو منصوری کے قتل کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے اور ایران کو اس کے ذمے داروں کے بارے میں مطلع کرنا چاہیے۔‘‘

بخارسٹ میں پولیس اس واقعے کی ایک حادثے ، خودکشی یا قتل تینوں پہلوؤں سے تحقیقات کررہی ہے۔ایران کے انٹرپول کے سربراہ ہادی شیرزاد نے جمعہ کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ غلام رضا منصوری نے ہوٹل کی کھڑکی سے کود کر خود کشی کی ہے اور رومانوی حکام نے اس بابت ایران کو مطلع کردیا ہے۔

ایرانی عدلیہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک عہدہ دار نے گذشتہ روز سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ غلام رضا منصوری نے شاید خودکشی ہی کی ہے۔‘‘

لیکن جج منصوری کے وکیل امیر حسین نجف پورسانی نے ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے سابق مؤکل ایسے شخص نہیں تھے کہ وہ اپنی جان ہی لے لیتے۔ انھوں نے رومانیہ کی پولیس اور حکومت کو ان کی موت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

انھوں نے ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایلنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ہم اور ان کا خاندان جس بات پہ پختہ یقین رکھتے ہیں،وہ یہ کہ منصوری اس قسم کے آدمی نہیں تھے جو خودکشی کرنا چاہتے تھے۔‘‘

نجف پورسانی کے مطابق ’’غلام رضا منصوری بخارسٹ میں 10 جون کو ایرانی سفارت خانے میں گئے تھے اور رات وہیں گزاری تھی۔وہ بدھ کی سہ پہر سے جمعرات کی شام تک وہاں موجود تھے اور پھر طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال لے جایا گیا تھا۔پھر جونھی وہ اسپتال پہنچے تو انھیں رومانوی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔‘‘

منصوری کی موت کی اطلاع منظرعام پر آنے کے بعد سپاہِ پاسداران انقلاب کے قریب سمجھی جانے والی ویب گاہ مشرق نیوز نے واقعے میں ممکنہ طور پر ایران کے ملوّث ہونے کا اشارہ دیا ہے۔

غلام رضا منصوری پر تہران میں پانچ لاکھ یورو رشوت لینے کا الزام تھا۔ وہ گذشتہ سال ملک سے بھاگ کر رومانیا چلے گئے تھے۔13 جون کو ایران نے اس امر کی تصدیق کی تھی کہ انٹرپول نے رومانیا میں جج منصوری کو گرفتار کر لیا ہے لیکن کرونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے انھیں بے دخل کرکے ایران کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔

ان پر ایران میں بیسیوں صحافیوں کی گرفتاری اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کا بھی الزام تھا۔اس وجہ سے ایرانی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنان بھی یورپ میں ان کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے اور وہ انھیں ایران کے حوالے کرنےکے بجائے ان کے خلاف یورپ ہی میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کررہے تھے۔

مقبول خبریں اہم خبریں