اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے امریکی نائب صدر کملا ہیرس کوان کے اس بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، جس میں انھوں نے کہا ہے اسرائیلی حکومت کا قانونی اصلاحات کا متنازع منصوبہ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کر سکتا ہے۔
کوہن نے جنوبی کوریا کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ اصلاحات میں انھیں کیا پریشانی لاحق ہے تو وہ آپ کو ایک بھی شق نہیں بتا سکیں گی جو انھیں پریشان کرتی ہے‘‘۔
ان سے ہیرس کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا جس میں انھوں نے امریکا کے اہم اتحادی اسرائیل سے اپنی عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ہیرس نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے زیراہتمام یہودی ریاست کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل اور امریکا کی اقدار مضبوط اداروں، چیک اینڈ بیلنس اور آزاد عدلیہ پر استوار ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہیرس نے اسرائیلی عدلیہ میں تبدیلیوں سے متعلق اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بلوں کو پڑھ لیا ہے، کوہن نے سرکاری ریڈیو براڈکاسٹر کان ریڈیو کو بتایا:’’مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے‘‘۔
کوہن نے زور دے کر کہا کہ اصلاحات سے اسرائیل کے قانونی نظام کو مزید متوازن بنایا جائے گا،اس پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور ملک کے اختیارات کی علاحدگی کو تقویت ملے گی۔بعد ازاں ایک بیان میں کوہن نے امریکا اور ہیرس کے لیے ’گہرے احترام‘ کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا:’’اسرائیل کی قانونی اصلاحات ایک داخلی مسئلہ ہے جو اس وقت استحکام اور بات چیت کے عمل میں ہے‘‘۔انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی ریاست ہمیشہ کی طرح جمہوری اور لبرل رہے گی۔
اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کرنے والے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے اور سیاست دانوں کو ججوں کے انتخاب پر زیادہ اختیارات دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ان کی تجاویز نے کئی ہفتوں سے اسرائیل بھر میں سڑکوں پر بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں۔
مارچ میں نیتن یاہو نے اصلاحات پر بات چیت کی اجازت دینے کے لیے 'وقفے' کا اعلان کیا تھا۔یہ مذاکرات اب بھی صدر اسحاق ہرتصوغ کے زیر نگرانی جاری ہیں۔