امریکا نے سیزر ایکٹ کے تحت شام سے تعلق رکھنے والے چھے افراد اور تیرہ اداروں کے خلاف نئی پابندیاں عاید کردی ہیں اور ان کے امریکا میں موجود اثاثے ضبط کر لیے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں ان شامی افراد اور اداروں کو بلیک لسٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکا کی ان پابندیوں کا مقصد صدر بشارالاسد کی حکومت کو مذاکرات کی میزپر لانا ہے تاکہ وہ گذشتہ ایک عشرے سے شام میں جاری بحران کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کرے۔
محکمہ خزانہ نے قبل ازیں 20 اگست کو اس ایکٹ کے تحت صدر بشار الاسد کی میڈیا مشیر لونا الشبل اور شام کی حکمراں بعث پارٹی کے ایک معروف رکن محمد عمار سعطی بن محمد نوزاد پر پابندیاں عاید کی تھیں۔
امریکا کے محکمہ خارجہ نے الگ سے شامی فوج کے متعدد یونٹوں کے کمانڈروں کے خلاف پابندیاں عاید کی تھیں۔ان میں قومی دفاعی فورسز کے کمانڈر فادی سقر بھی شامل ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ان شامی عہدے داروں پر جنگ بندی میں حائل ہونے اور اس کی پاسداری نہ کرنے کی بنا پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ امریکا اور اس کے اتحادی بشارالاسد اور ان کے معاونین کے خلاف تنازع کے پُرامن اور سیاسی حل تک دباؤ برقرار رکھنے کے لیے متحد ہیں۔بشارالاسد اور ان کے غیرملکی سرپرست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب گھڑی کسی وقت بھی اقدام کے لیے ٹک ٹک کررہی ہے۔‘‘
محکمہ خزانہ اور محکمہ خارجہ کی نئی پابندیوں کی زد میں آنے والی ان شامی شخصیات کے امریکا میں اگر کوئی اثاثے ہیں تو انھیں ضبط کر لیا جائے گا اور امریکی شہری ان کے ساتھ کوئی کاروبار نہیں کرسکیں گے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نو ماہ قبل سیزر شامی شہری تحفظ ایکٹ پر دست خط کیے تھے۔یہ صرف سیزر ایکٹ بھی کہلاتا ہے اور یہ 17 جون کو نافذالعمل ہوا تھا۔
اس کے تحت امریکا نے پہلے مرحلے میں 39 شامی افراد اور اداروں کو بلیک لسٹ قراردیا تھا اور ان پر پابندیاں عاید کی تھیں۔اس کا کہنا تھاکہ یہ شام کے خلاف اقتصادی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھنے کی پائیدار مہم کا نقطہ آغاز ہے۔اس کا مقصد اسد رجیم کو آمدن کے حصول سے روکنا ہے۔
قبل ازیں امریکا نے جن بدنام زمانہ شامی شخصیات پر پابندیاں عاید کی تھیں،ان میں خود صدر بشارالاسد ، ان کی اہلیہ اسماء ، ان کے چھوٹے بھائی ماہرالاسد اور بہن بشریٰ شامل تھیں۔