یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد اداروں کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے سے یورپی براعظم کی حکومتوں کے درمیان ایرانی حکومت اور اس کے اہم ترین عسکری اور سکیورٹی اداروں سے نمٹنے کے طریقے کے حوالے سے نازک اور حساس اختلافات کا انکشاف ہوا ہے۔
کل پیر کو یورپی یونین کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں گذشتہ ہفتے یورپی پارلیمنٹ کے منظور کردہ فیصلے کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پرپاسداران انقلاب کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست سے متعلق متن پر غور کیا گیا کہ آیا پاسداران انقلاب کو بلیک لسٹ کیا جائے یا نہیں۔
وزراء خارجہ نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ یونین کے ارکان کا خیال ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی ملک کی عدالت کے جاری کردہ فیصلے سے مشروط ہے۔
اس سلسلے میں امریکی فارسی ریڈیو ’فردا‘ نے یورپی سفارت کاروں کے حوالے سے جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی کہا کہ "پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے مختلف آراء اور ہدایات موجود ہیں"۔
فرانس کو زیادہ دلچسپی نہیں
ان سفارت کاروں کے مطابق فرانس اس فیصلے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا اور جرمن وزیر خارجہ کے بیانات کے باوجود "برلن میں اس حوالے سے رائے غیر یقینی ہے"۔ "پرتگال اور مالٹا" سمیت بعض جنوبی یورپی ممالک ایران کے خلاف پابندیوں کے ایکشن کی حمایت نہیں کرتے۔
اس کے باوجود سفارت کاروں کے مطابق اس میدان میں مختلف مسائل ہیں جو ممالک کو ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے پر رضامندی سے روکتے ہیں۔
بہت سے ممالک کے شہری بھی ایرانی جیلوں میں بند ہیں جن میں سے کچھ دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔
روس کے بارے میں ایران کا موقف
ان سفارت کاروں میں سے ایک نے یورپی یونین کے 27 وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ "اس میدان میں مستقبل کے اقدامات کا انحصار روس کے حوالے سے ایران کے اقدامات پر بھی ہے"۔ انہوں نے تہران کی طرف سے یوکرین جنگ میں روس کو جنگی ڈرونز کی فراہمی کا بھی حوالہ دیا۔
فردا کے مطابق ایک سینیر یورپی سفارت کار نے گذشتہ ہفتے برسلز میں صحافیوں کو بتایا کہ "ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنا اچھا خیال نہیں ہے، کیونکہ یہ ایران سے متعلق دیگر مسائل کو حل کرنے سے رکاوٹ ثابت ہوگا ۔"
اس سینیر سفارت کار نےجس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی نے 20 جنوری کو وضاحت کی کہ "اگر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جوہری معاہدہ) کو بحال کیا جاتا ہے تو ایرانی پاسداران انقلاب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عائد کردہ پابندیاں موثر رہیں گی ۔"
19 جنوری کو فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں منعقدہ اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ایرانی پاسداران انقلاب کویورپی یونی کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یورپی پارلیمنٹ نے یہ قرارداد ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرین کے خلاف ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے کیے جانے والے حد سے زیادہ تشدد، روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے لیے ایرانی ڈرونزکے استعمال اور ایرانی پاسداران انقلاب کی خطے میں کے ردعمل میں جاری کی تھی تاہم یہ قرارداد منظور نہیں کی گئی۔
-
امریکااوربرطانیہ نے ایران کے اعلیٰ عہدے داروں اور اداروں پرنئی پابندیاں عایدکردیں
امریکا اوربرطانیہ نے عوام کےانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں مزید ایرانی شخصیات، اعلیٰ عسکری حکام اوراداروں پر پابندیاں عایدکردی ہیں جبکہ یورپی ... بين الاقوامى -
ایران کی یورپی یونین کو پاسداران انقلاب کودہشت گرد قراردینے پرمساوی جواب کی دھمکی
ایران نے یورپی یونین کوخبردارکیاہے کہ اگر اس نے سپاہِ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قراردیا تو وہ اس کے خلاف مساوی جوابی اقدامات کرے گا۔ایران کے ... بين الاقوامى -
ایران:جیل میں بند سیاسی قیدی خواتین کامظاہرین کی سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ
ایران میں 30 سیاسی قیدی خواتین نے، جن میں ایک فرانکو،ایرانی ماہرتعلیم اور ایک سابق صدر کی بیٹی بھی شامل ہیں،اتوار کے روز ملک میں مظاہرین کی سزائے موت ... بين الاقوامى