جوبائیڈن اور سعودی عرب

عبدالرحمٰن الراشد
عبدالرحمٰن الراشد
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
7 منٹس read

امریکی فوج کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے خطے میں فوج کے توسیعی منصوبے کے حصے کے طور پر حال ہی میں سعودی عرب میں بحیرہ احمر اور دوسری بہت سی جگہوں کا دورہ کیا ہے اورامریکا سعودی عرب سے اس توسیعی منصوبہ سے اتفاق کےلیے کہہ سکتا ہے۔

اگر فوجی وفد کا یہ دورہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہوتا تو اس کو ان کا سرمایہ کاری کا ایک منصوبہ سمجھاجاتا۔البتہ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکا اور سعودی عرب کی مشترکہ فوجی مشقیں جاری تھیں۔یہ ان لوگوں کے لیے کافی جواب ہونا چاہیے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ جوزف بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اوران کے دور میں سعودی ،امریکا تعلقات منفی انداز میں متاثر ہوں گے۔

درحقیقت سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات اس وقت تک زیادہ اہمیت کے حامل رہیں گے، جب تک امریکا کی ترجیحات میں چین سے مسابقت ،توانائی ، جوہری ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ اور دہشت گردی ایسے امور کو اوّلیت حاصل رہتی ہے۔امریکا کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سعودی عرب ایسے ملک سے علاقائی سطح پر تعاون درکار ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں یہی قوتِ محرکہ کارفرما ہے اور میڈیا میں تنازعات یا بعض امریکی عہدےداروں کے جاری کردہ بیانات کا ان تعلقات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

امریکا کے نئے صدر کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے حالیہ فیصلوں یا انتظامی احکامات کے تیزی سے اجرا کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل ازوقت ہوگااور غیر عاقلانہ بھی۔ان کی انتظامیہ کے خطے اور بالخصوص سعودی عرب سے متعلق بیانات کی بنیاد پر بھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ان امور میں سب سے اہم یمن بحران کے بارے میں صدر جوبائیڈن کا سعودی عرب سے مختلف نقطہ نظر ہے۔میری رائے میں تو دونوں ملکوں کے درمیان سب سے چیلنج والی فائل کے بارے میں انھیں سب سے پہلے کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

جو بائیڈن ہمیں اس وقت حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں جب وہ ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے حملوں سے سعودی عرب کو تحفظ مہیا کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہیں۔اس کو ایک ایسا قدم سمجھا جاسکتا ہے جو سابق ٹرمپ انتظامیہ کے سعودی عرب کی حمایت میں کیے گئے اقدامات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اس کے جواب میں سعودی عرب نے یمن میں ایک پُرامن حل کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔پھر صدر بائیڈن نے یمن کے لیے اپنے خصوصی ایلچی کا تقرر کیا ہے، جیسا کہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ نے بھی کیا تھا۔

آنے والے مختصر وقت میں ہم دو میں سے کسی ایک چیز کی توقع کرسکتے ہیں۔یاتو حوثی یمن سے سعودی عرب کے شہروں کو اپنے ڈرون اور میزائل حملوں میں نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کردیں گے،یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی اور یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل کی راہ ہموار کرے گی یا پھر وہ اپنے میزائلوں اور ڈرونز کو سرحد پار بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب اپنے ایف 15 لڑاکا جیٹ کو جوابی کارروائی کے لیے بھیج سکتا۔

مذکورہ بالا دوسری صورت میں اگر حوثی امریکا کی جنگ بندی کو توڑتے ہیں توپھر امریکا کو جنگ میں اپنے وعدے کی پاسداری کے لیے حصہ لینا ہوگا اور سعودی عرب حوثیوں کی جارحیت کے ردعمل میں جوابی کارروائی کرنے کے لیے حق بجانب ہوگا۔دونوں صورتوں میں سعودی عرب یمنی تنازع پر قابو پانے کے قابل ہوگا۔

فطری طور پر ہمارے ذہن میں اس بات میں ذرا سا بھی شُبہ نہیں کہ حوثی ایرانیوں کے آلہ کار ہیں۔ وہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی طرح ایران ہی کے پروردہ ہیں۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران ہی وہ واحد فریق ہوگا جس کو جنگ بندی یا جنگی منظرنامے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

مزید برآں، جو لوگ سعودی عرب اورامریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں،ان کے سامنے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ ایک طرح سے بین الاقوامی اتحادوں کی ایک نوعیت یا شکل ہوتی ہے اور مغربی یورپ امریکا سے اسی طرح کے اتحاد کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔اس کو امریکا دوسری عالمی جنگ کے بعد سے روس کے مقابلے میں فوجی تحفظ مہیا کررہا ہے۔اسی طرح آج کے دن تک جاپان کو امریکا کا مکمل فوجی تحفظ حاصل ہے۔ان ناقدین کو مغرب کے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تحفظ اور فوجی تعاون پرتنقید سے پہلے اس تمام صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اب ہم امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی جیت کی بات کرتے ہیں اور یہ کہ اس کے کیا مضمرات ہیں۔ڈیموکریٹس کی سعودی عرب کے خلاف ناقدانہ مہم بلاشبہ امریکا، سعودی تعلقات میں بدترین تھی۔گذشتہ پانچ سال کے دوران میں اس جماعت کے ارکان نے مسلسل الریاض کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔وجہ اس کی براک اوباماے کے دور میں امریکا کی ایران سے جوہری ڈیل پر سعودی عرب کا اختلاف بنی تھی۔اس کے علاوہ یمن میں جنگ ،سعودی عرب کی جانب سے مصر کی الاخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے بعد حمایت،ڈونلڈ ٹرمپ کا 2016ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد الریاض کا سب سے پہلے غیرملکی دورے کے لیے انتخاب،اس انتخاب کی بنا پر ڈیمو کریٹس ان پر جمال خاشقجی کے کیس کو سیاسی رنگ دینے کے لیے حملہ آور ہوتے رہے ہیں لیکن آج ڈیموکریٹس اقتدار میں ہیں اور وہ سعودی عرب کی اہمیت سے مکمل طور پرآگاہ ہیں۔وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی متعارف کردہ اصلاحات سے بھی آگاہ ہیں۔

سعودی عرب کا سیاسی نظام اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوچکا ہے اور ریاست زیادہ متحرک ، فعال اور اہم ہوچکی ہے۔امریکی اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے خطے کے ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات کا بندوبست خود اپنے مفادات کی بنیاد پر کررہے ہیں۔

تاہم، ہم امریکا کے یمنی حوثیوں کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے حذف کرنے سے متعلق بیانات ، سعودی عرب کی فوجی حمایت کے خاتمے اور داخلی امور میں مداخلت سے متعلق بیانات کاکیا تجزیہ کرسکتے ہیں؟اس پر ہم آیندہ کالم میں بات کریں گے۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں