بعد از داعش زندگی: سابق جنگجوؤں کا اظہارِ ندامت، معاشرے میں نئی شروعات کے خواہاں
سخت گیرجنگجوگروپ داعش کے سابق ارکان اور معاونین نے اپنے ماضی پر ندامت کا اظہار کیا ہے اوراب وہ جیلوں یا حراستی مراکز سے رہائی کے بعد ایک نئی زندگی کی شروعات چاہتے ہیں۔انھوں نے العربیہ کے ایک دستاویزی پروگرام میں تفصیل سے اپنی سابقہ زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
العربیہ کی رپورٹر رولا الخطیب نے شام اور عراق میں حراستی مراکز اور جیلوں میں جا کر داعش کے سابق جنگجوؤں اور ان کی خواتین کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔انھوں نے پہلی مرتبہ بعض ہوشرباانکشافات کیے ہیں اورداعش کی جنگی زندگی کی اس طرح کی تفصیل پہلی مرتبہ منظرعام پرآئی ہے۔
العربیہ کی نمایندہ نے ’’فیس ٹو فیس: داعش کے آدمی پنجرے سے باہر‘‘کی قسط میں اس دہشت گرد گروپ کے چار سابق ارکان سے گفتگو کی ہے۔انھیں ان کے دہشت گردی سے متعلق جرائم پرجیل کی سزا ہوئی تھی اور اب وہ رہائی ے بعد شام کے مشرقی شہر دیر الزور میں رہ رہے ہیں۔
ان میں سے ایک شخص نے صرف فہد کے نام سے اپنی شناخت کرائی تھی۔انھوں نے العربیہ کی نمایندہ کو اپنے گھر میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ داعش کے ساتھ بیتے دنوں کے بارے میں کھل کر بات کرسکیں۔العربیہ نے فہد کی شناخت کو چھپانے کے لیےان کا چہرہ ظاہر نہیں کیا۔
فہد کو اب بھی داعش کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہ خوف زدہ ہیں۔انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گرد گروپ تو اب بھی شام میں موجود ہے اوروہ گروپ کے سابق ارکان سے رابطہ کرسکتا ہے۔
انھوں نے العربیہ کو بتایا کہ ’’یہاں دیر الزورمیں سکیورٹی کے نقطہ نظر سے حالات آئے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔اس لیے ہم خوف زدہ ہیں،ہم رات کے وقت باہر نہیں نکل سکتے اوراپنے گھروں ہی میں مقیّد رہتے ہیں۔‘‘
ایک اور سابق جنگجو نے اپنی شناخت صرف ایف اے اے کے نام سے کرائی۔ وہ عراق کے ضلع سنجار میں داعش کی جانب سے عراقی فورسز کے خلاف لڑتے رہے تھے۔انھوں نے بتایا کہ داعش نے انھیں شام میں ان کے آبائی قصبے سے لڑائی کے لیے بھرتی کیا تھا۔
لیکن وہ بتاتے ہیں کہ داعش جس طرح کی تشددآمیز کارروائیاں کر رہے تھے، وہ ان کا حصہ نہیں بن سکتے تھے۔وہ داعش میں شمولیت کی ایک بالکل مختلف وجہ بتاتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’’میں تو بھوکا تھا،ہمارا علاقہ داعش کے محاصرے میں تھا۔ہم نوجوان آدمی تھے۔اس لیے ہم یا توان کی (داعش کی) صفوں میں شامل ہوتے یا پھر ہم بھوک سے مرتے کیونکہ ہم نان جویں کو ترس رہے تھے۔اس لیے میں ان کے ساتھ شامل ہوگیااور محاذِ جنگ پر بھی گیا تھا لیکن میں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔‘‘
نئی زندگی کا خواب
ایف اے اے کو امریکا کی حمایت یافتہ شامی جمہوری فورسز(ایس ڈی ایف) نے دیرالزورمیں گرفتارکیا تھا اور دوسال قید کی سزاسنائی تھی۔انھیں تین ماہ قبل ہی جیل سے رہا کیا گیا ہے اور اب وہ نئی زندگی شروع کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’میں ایک نئی زندگی چاہتاہوں، ایک ایسی زندگی جس میں میرا گھر ہواور میرا اپنا کام ہو۔میرے پاس کوئی روزگار ہے اور نہ کوئی رقم ہے۔‘‘
ان سے جب کہا گیا کہ اگر داعش واپس آجاتے ہیں اورانھیں رقم کی پیش کش کی جاتی ہے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ایف اے اے کا جواب تھا کہ ’’وہ اس رقم کو لینے سے انکار کردیں گے، خواہ وہ اس وقت مالی طور پر کتنے ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں۔‘‘ان کے تین بیٹے ہیں۔ان میں سے ایک نے داعش میں شمولیت اختیارکی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ وہ ماضی والی غلطی کا اعادہ نہیں کریں گے اور اگر کوئی ان سے رابطہ کرے گا تو وہ اس کے بارے میں شام کے انٹیلی جنس ایجنسی یا محکمہ قومی سلامتی کو بتادیں گے۔’’میں براہ راست ان محکموں کے پاس جاؤں گا کیونکہ میں اپنے تلخ تجربے کے بعد ان داعشیوں سے سخت نفرت کرتا ہوں۔‘‘
ان سے جب رولا الخطیب نے پوچھا:’’وہ لوگوں کا سامنا کیسے کرتے ہیں؟‘‘ایف اے اے کا جواب تھا:’’ بعض لوگ کہتے ہیں میں کہ داعش کا ساتھی تھا،بعض دوسرے کہتے ہیں: یہ ایک غدار ہے۔ بعض لوگ تو مجھ سے نفرت کرتے ہیں لیکن بعض لوگ مجھے پسند بھی کرتے ہیں۔‘‘
العربیہ کی نمایندہ نے تین داعشی جنگجوؤں کی ماں سے بھی بات چیت کی ہے۔انھیں داعش میں شمولیت پرافسوس تھا لیکن اب وہ اپنے بیٹوں کے بارے میں فکرمند اورخوف زدہ ہیں کیونکہ یہاں آئے دن چھاپے پڑتے رہتے ہیں۔
انھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’میرے بیٹے ہی میرا سب کچھ ہیں، میں نہیں جانتی کہ میں ان کے لیے کیا کرسکتی ہوں۔ میں نے بہت مصائب جھیلے ہیں اور اب یہ چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے میرے پاس موجود ہوں۔میں رات کو سو نہیں سکتی۔خوف وتشویش کی وجہ سے میرے بال بھورے ہوچکے ہیں۔‘‘
خوف کے سائے
اے ایس اے کے مخفف نام سے اپنی شناخت کرانے والے داعش کے ایک اور جنگجو نے داعش کے ساتھ شامی نظام کی فورسز کے خلاف تین سال تک تعاون کیا تھا لیکن داعش کے زوال کے بعد وہ جیل جانے سے تو بچ گئے تھے مگرماضی کی تلخ یادیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں اور وہ بدستور خوف کے سائے میں رہ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا:’’ میں اب معاشرے میں گھلنا ملنا چاہتا ہوں اور کسی بھی دوسرے فرد کی طرح معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے دہشت گرد پکارے۔میں ان کا بھائی ہوں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ’’کوئی بھی مجھ سے ملنے کے لیے نہیں آیا اور نہ میں کسی سے ملنے کے لیے گیا ہوں یا کسی سے بات کی ہے۔میرا کوئی روزگار نہیں مگر میں کہیں بھی نہیں جاسکتا کیونکہ لوگ مجھے ایک دہشت گرد خیال کرتے ہیں۔‘‘
سماجی مقاطعہ
العربیہ نے داعش کے جس سابق چوتھے جنگجو سے انٹرویو کیا،انھوں نے اپنی شناخت صرف ایچ کے اے کے نام سے کرائی۔وہ شام میں داعش اور شہریوں کے درمیان رابطہ افسر کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔
انھیں دہشت گرد گروہ کے لیے کام کرنے کی پاداش میں کئی ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔جب شامی جہوری فورسز نے دیرالزور شہر پ قبضہ کیا تو انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا مگرانھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ گرفتار نہیں ہوتے تو وہ خودکو ایس ڈی ایف کے حوالے کردیتے۔
وہ بھی داعش کے دوسرے سابق ارکان ایسی ہی تنہائی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ایک طرح سے ان کا سماجی مقاطعہ کیا جارہا ہے۔
وہ اپنا احوال یوں بیان کرتے ہیں:’’میں کسی کے ہاں جاتا ہوں اورنہ کسی اجتماع میں شریک ہوسکتا ہوں۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ معاشرہ ہمیں کس نظر سے دیکھتا ہے۔لوگ ہمیں اب بھی داعش کا ساتھی سمجھتے ہیں۔اگرکوئی دوست گھرمیں مجھے ملنے آجاتا ہے تو لوگ اس کا غلط مطلب لیتے ہیں۔اس لیے میں صرف اپنے خاندان، ہمسایوں اور قریبی رشتے داروں ہی سے میل جول رکھتا ہوں۔‘‘
وہ اب معاشرے کے اس ادراک کو تبدیل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ’’میں اب ہرکسی کی مدد کرتا ہوں، خواہ میں اس کو جانتا ہوں یا نہیں۔ وہ خواہ مرد ہے یا عورت یا بچہ یا ضعیف العمر فرد، میں ہر کسی کی مدد کرتا ہوں۔میں نے اپنے بچوں کوبھی یہ تعلیم دی ہے کہ ان کے پاس جو کوئی بھی ضرورت مند بوڑھا آئے،اس کی مدد ضرورکریں تاکہ لوگوں کے ساتھ میرے تعلقات میں بہتری آئے اور میں معاشرے میں گھل مل سکوں۔‘‘