جب کوئی ریاست ویژن سے محروم ہو جاتی ہے اور افراتفری کے بادل اس پر چھا جاتے ہیں تو پھر ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ امریکی جریدے The economist نے ترکی کی معیشت کے تاریک مستقبل کے حوالے سے ایسا ہی کچھ حال بیان کیا ہے۔ جریدے کے مطابق اس ابتر صورت حال کی وجہ حکمراں اشرافیہ کی بدعنوانی اور نا اہل ہونے کے باوجود ریاستی اداروں پر ان کا قبضہ ہے۔
دی اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق تُرک صدر رجب طیب ایردوآن نے جب روس سے S-400 دفاعی میزائل نظام خریدنے کا ارادہ کیا تو انہیں معلوم تھا کہ اس فیصلے کے کتنے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ وہ ابھی تک اس نظام کو چلا نہیں سکے ہیں جب کہ میزائل نظام خریدنے کی پاداش میں ترکی کی کمپنیوں کو F-35 طیاروں کی تیاری کے عمل سے باہر کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ترکی کی کمپنیوں کو 9 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے سمجھوتوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اگرچہ ترکی کی فضائیہ کو مذکورہ لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے تاہم اسے کوئی طیارہ نہیں ملا۔
جریدے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ ترکی میں اس وقت تجارتی سرگرمیوں کو دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ملک کو درپیش کئی کاری ضربوں نے تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے اعتماد کو متاثر کیا ہے۔ ان واقعات میں دسیوں بڑے دہشت گرد حملے، فوجی انقلاب کی ناکام کوشش اور اس کے بعد اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کی مہم، کرنسی کا شدید بحران، امریکا اور یورپ کے ساتھ سفارتی اختلافات اور انقسام پیدا کرنے والے انتخابات شامل ہیں۔ البتہ کرونا کی وبا ترکی کی معیشت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق سنگین کساد بازاری جاری ہے۔ برآمدات میں کمی آ گئی ہے ، لیرہ کمزور ہو چکا ہے اور ملک میں بے روزگاری ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ سالانہ 35 ارب ڈالر لانے والی سیاحت کی صنعت کو کئی دہائیوں کے بعد روں سال بدترین صورت حال کا سامنا ہے۔