سعودی عرب :کووِڈ-19 کے 1019 نئے کیسوں کی تشخیص ، 30 مریض چل بسے!

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

سعودی عرب نے جمعرات کے روز کووِڈ-19 کے 1019 نئے کیسوں کی تشخیص اور 30 اموات کی اطلاع دی ہے جبکہ اس مہلک وائرس کا شکار مزید 1310 مریض صحت یاب ہوگئے ہیں۔

سعودی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک مملکت میں کووِڈ-19 کا شکار ہونے والے مریضوں کی کل تعداد 311855 ہوگئی ہے۔ ان میں سے 3785 مریض وفات پا چکے ہیں۔

Advertisement

وزارتِ صحت نے گذشتہ 24 گھنٹے میں مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ 96 نئے کیسوں کے اندراج کی اطلاع دی ہے۔اس کے بعد دارالحکومت الریاض میں 56 ، عنیزہ میں 52 اور مدینہ منورہ میں 50 نئے کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

ساحلی شہر جدہ میں کووِڈ-19 کے یومیہ کیسوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور وہاں صرف 32 نئے کیسوں کی تشخیص ہوئی ہے۔سعودی عرب میں اس وقت کرونا وائرس کے 21815 فعال کیس ہیں۔ان میں سے 1582 مریضوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے اور وہ مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

واضح رہے کہ جون کے آخر میں ہانگ کانگ میں قائم گروپ ڈیپ نالج نے ڈیٹا کے جامع تجزیے کے بعد سعودی عرب کو کرونا وائرس کی وَبا کے خلاف جنگ میں دنیا کے محفوظ ترین بیس ممالک میں شمار کیا تھا۔وہ سترھویں نمبر پر تھا اور وہ کووِڈ-19 کے مریضوں کی صحت و سلامتی کے معاملے میں پہلے زمرے کے ممالک میں شامل تھا۔

ڈیپ نالج گروپ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کووِڈ-19 کے تحفظ جائزے میں سعودی عرب کو علاقائی استحکام کے اشاریے میں پہلے نمبر پر شمار کیا تھا۔اس میں کووِڈ-19 کی وَبا کے دوران میں ایک ملک کی آبادی ، جغرافیائی، سیاسی استحکام ، معاشرتی نظم وضبط اور تحفظ کے دوسرے عوامل کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔

سعودی عرب کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی تیاری کے انڈیکس میں ساتویں نمبر پرتھا۔اس میں چار عوامل ہنگامی فوجی نقل وحرکت کے تجربے، معاشرتی سطح پر ہنگامی استحکام کی سطح اور نفسیاتی ، ثقافتی اور مذہبی اعمال اور رویوں کے اشاریے وغیرہ شامل تھے۔

سعودی عرب مانیٹرنگ اور کرونا کا سراغ لگانے کے اشاریے میں انیسویں نمبر پر رہا تھا۔اس میں ٹیسٹنگ کو مؤثرانداز میں بروئے کار لانے اور ڈیٹا کی شفافیت ایسے عوامل شامل کیے گئے تھے۔

اس کے مقابلے میں ایران کو 200 ممالک میں سوویں نمبر پر شمار کیا گیا تھا۔اس کی بڑی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ اس کے کرونا کے مریضوں کے ڈیٹا میں شفافیت نہیں تھی اور اس کے بارے میں اندرون اور بیرون ملک شکوک کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں