افغانستان مسلح گروپوں کا بین الاقوامی مرکز بنتا جا رہا: امریکی رپورٹ

طالبان وعدوں کے باوجود دہشت گرد گروہوں کی میزبانی کر رہے ہیں: افغان امور کے امریکی انچارج

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
6 منٹس read

امریکہ کے ساتھ بہت سے معاملات پر بظاہر اختلافات کے باوجود روس، چین اور ایران افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کے بارے میں واشنگٹن کی طرح ہی تحفظات کا اظہار کر تے دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ ممالک اسی بنا پر طالبان کی حکومت سے انسداد دہشتگردی کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ افغانستان میں مقیم مبینہ دہشت گرد گروپوں نے پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کے خلاف حملوں کی نہ صرف منصوبہ بندی کی بلکہ حملوں کو انجام بھی دیا۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت 20 سے زائد مسلح گروپ اپنی افغانستان میں موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

امریکہ کے نیوز نیٹ ورک ’’ وائس آف امریکہ‘‘ کے مطابق بالخصوص تشویش کا باعث پاکستانی طالبان کی افغانستان میں سرگرم موجودگی ہے۔ یہ ایک باغی گروپ ہے جس نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ گزشتہ ہفتے روس، چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے سینئر سفارت کاروں نے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے تاشقند میں ملاقات کی ہے۔

ازبک وزارت خارجہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکا نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد گروہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے بدستور سنگین خطرہ ہیں۔ تاشقند اجلاس میں شریک ہونے والے ان ملکوں نے موجودہ ڈی فیکٹو افغان حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مزید موثر اقدامات کریں۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے گزشتہ ہفتے ’’طلوع‘‘ نیوز کو بتایا تھا کہ اگرچہ طالبان نے خود سے عہد کیا ہے کہ وہ ایسے دہشت گردوں کی میزبانی نہیں کریں گے جو دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان گروپوں کو اپنی سرزمین پر تربیت دینے ، بھرتی یا فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تاہم اب بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے متعلق گفت و شنید کے دوران طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے گروپوں اور افراد کے خلاف، تیزی سے کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اب بین الاقوامی پابندیوں میں 6 ہمسایوں ملکوں کے لیے غیر محفوظ سرحدوں کے ساتھ ملک چلا رہے ہیں۔ ان کی کوئی منظم فوج نہیں ہے اور وہ امریکی اور علاقائی انسداد دہشت گردی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں ۔ آئی سی جی میں بین الاقوامی بحرانوں کے ماہر گریم سمتھ نے کہا کہ ہر کوئی پاکستانی طالبان کو افغانستان میں پناہ لینے اور پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔

طالبان افغانستان کے اندر دہشت گرد گروپوں کو پناہ دینے کی تردید کر رہے ہیں اور دوسرے ملکوں کے لیے سکیورٹی خطرات کو روکنے کے اپنے عزم کا بھی بارہا اعادہ کرتے آرہے ہیں۔ نام نہا د دولت اسلامیہ خراسان صوبہ ’’ آئی ایس کے پی‘‘ اور دیگر مسلح اپوزیشن گروپوں کی جانب سے جاری خطرات کو غیر معمولی قرار دینے کے باوجود طالبان افغانستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے افغانستان کے شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے گورنر ایک خودکش حملے میں مارے گئے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ دسمبر میں داعش نے شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں ایک ضلعی پالیسی عہدیدار کے قتل کا اعلان کیا تھا۔ طالبان اور داعش دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔

اقوام متحدہ نے رپورٹ کیا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں اسلامک سٹیٹ نے مذہبی اقلیتوں اور دیگر کمزور گروہوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں گزشتہ سال پورے افغانستان میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

تقریباً تین دہائیوں سے امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں اور اس کے رہنماؤں کی موجودگی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتا آرہا ہے۔ القاعدہ نے افغانستان میں رہ کر دنیا بھر میں امریکی مفادات کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔

القاعدہ کے رہنماؤں کی تلاش میں امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا ۔ گزشتہ برس کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو مارا گیا تھا۔

دہشت گردی سے لڑنے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الظواہری کو پناہ دینے کے الزام سے بچتے ہوئے طالبان نے اس بات کی تصدیق سے انکار کردیا تھا کہ القاعدہ کا رہنما ایمن الظواہری واقعی کابل میں موجود تھا اور اسے مار دیا گیا ہے۔

فروری میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں تک کہ القاعدہ نے بھی افغان طالبان کے کابل میں الظواہری کی موت کو تسلیم نہ کرنے کی حساسیت کی وجہ سے ابھی تک اپنے نئے رہنما کا اعلان نہیں کیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ القاعدہ کا نیا رہنما ’’سیف العدل‘ بن گیا ہے جو مصری سپیشل فورسز کا سابق افسر ہے۔ سیف العدل ایران میں ہے تاہم تہران نے اپنے ہاں سیف العدل کی موجودگی کی تردید کردی ہے۔ امریکہ اور طالبان دونوں ایک دوسرے پر فروری 2020 میں ہونے والے قطر کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ دونوں فریقوں کو اختلافات سے کیسے نمٹنا ہوگا۔

مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں