ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادلب میں "اُن کے راستے سے ہٹ جائیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "بعض فریقوں نے ہماری جنوبی سرحد پر دہشت گرد راہ داری کے ذریعے ترکی کا گھیرا ڈالنے کی کوشش کی"۔
ایردوآن کے مطابق انقرہ حکومت شامی حکومت پر دباؤ بڑھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شامی حکومتی فورسز کے 2000 سے زیادہ عناصر مارے جا چکے ہیں۔ ایردوآن کا کہنا تھا کہ "اگر شمالی شام میں دہشت گرد تنظیموں پر قابو نہ پایا گیا تو ہم ترکی میں ان سے لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے"۔ ترکی کے صدر نے یورپ کو دھمکی دی کہ وہ مہاجرین کے لیے سرحدوں کو کھلا رکھیں گے۔ ایردوآن کے مطابق اس وقت ایک ہزار پناہ گزین سرحد پار کرنے کے منتظر ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ پناہ گزینوں کو امداد پیش کرنے کے حوالے سے اب یورپی وعدوں کا اعتبار نہیں رہا۔
ایردوآن نے ترکی کی جنوبی سرحد پر دس لاکھ سے زیادہ شامی شہریوں کے لیے ایک سیف زون کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترکی اس وقت 37 شامیوں کی میزبانی کر رہا ہے اور اب ہمارے پاس مزید مہاجرین کو کھپانے کی گنجائش نہیں ہے۔
ایردوآن نے مزید کہا کہ ترک فوج بشار الاسد کی دعوت پر شام میں داخل نہیں ہوئی بلکہ وہ شامی عوام کی دعوت پر وہاں گئی۔ ترکی کے صدر کے مطابق ان کا ملک شام کی اراضی یا اس کے تیل پر نظر نہیں رکھتا۔
روسی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں باور کرایا ہے کہ حالیہ دنوں میں روسی اور ترک اعلی عہدے داران کے درمیان ملاقاتوں میں دونوں ملکوں نے شام میں "جارحیت میں کمی" کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔ فریقین نے بات چیت میں زمینی طور پر جارحیت پر روک لگانے اور دہشت گردوں کے انسداد کا سلسلہ جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر ویسلے نبینزیا نے جمعے کے روز سلامتی کونسل کے سامنے اعلان کیا تھا کہ روس شمالی مغربی شام میں ادلب کے علاقے میں جارحیت کم کرنے کے تمام خواہش مند فریقوں کے ساتھ کا کرنے کے لیے تیار ہے۔ سفیر کے نزدیک سلامتی کونسل شام کے حوالے سے بہت اجلاس منعقد کر رہی ہے تاہم اس بات کا اقرار کرنا ہو گا کہ ادلب میں "صورت حال خراب اور انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے"۔
سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، بیلجیم، اسٹونیا اور ڈومینیکن ریپبلک کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں نبینزیا نے بتایا کہ اس وقت صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے روس کا ایک وفد انقرہ میں موجود ہے۔
رواں ماہ فروری کے آغاز کے بعد سے شام کے حوالے سے یہ سلامتی کونسل کا چھٹا اجلاس تھا۔ اجلاس میں روسی سفیر نے ایک بار پھر باور کرایا کہ شامی حکومت کی جانب منسوب جمعرات کے روز ہونے والے حملوں میں روس شریک نہیں تھا۔ انقرہ کے مطابق حملوں میں ترکی کے 34 فوجی ہلاک ہو گئے۔
ادھر جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ترکی کی فوج نے شام کے شہر حلب سے 13 کلو میٹر جنوب میں واقع کیمیائی ہتھیاروں کی ایک تنصیب کو تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ شامی حکومت کے زیر انتظام دیگر ٹھکانوں کی ایک بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس بات کا اعلان ایک سینئر ترک عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر صحافیوں کے سامنے کیا۔
شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ترکی نے حلب کے مشرقی دیہی علاقے میں کویرس کے فوجی ہوائی اڈے کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ المرصد کے مطابق یہاں کیمیائی ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
سال 2011 میں شام کا تنازع شروع ہونے کے بعد سے بشار حکومت پر کئی بار کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ بشار حکومت اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے یہ باور کراتی ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے اپنا اسلحہ خانہ ختم کر چکی ہے۔ متعدد مبصرین کو بشار حکومت کے اس دعوے پر شکوک ہیں۔
ترکی کی جانب سے مذکورہ نئے حملے جمعرات کے روز 34 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ انقرہ حکومت ترک فوجیوں کی ہلاکت کا ذمے دار شامی حکومت کو ٹھہراتی ہے۔
-
ادلب: ترکی نے بشار الاسد کے 31 فوجی ہلاک کر دیے
شام کے محاذ پر لڑائی کے دوران روسی اور شامی فوج کے حملوں میں ترکی کے 33 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انقرہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بشارالاسد کی فوج کے ... مشرق وسطی -
شام میں اسدی فوج اور روس کے خلاف ترکی کے ساتھ کھڑے ہیں: پومپیو
شمالی شام میں ترکی کی فوجی چڑھائی پر امریکا کی طرف سے ترکی کے ساتھ تعاون کا اعلان سامنے آیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ان کا ملک ... مشرق وسطی -
شام میں ترکی کے حملے میں حزب اللہ کے دو کمانڈر ہلاک
شام کے شمالی صوبے ادلب میں ترکی کی فوج نے ایک تازہ حملے میں شامی فوج کے مزید چار سینیر افسر اور لبنانی حزب اللہ کے دو کمانڈر ہلاک کر دیے۔العربیہ ڈاٹ ... مشرق وسطی