شدت پسندی اور نسل پرستی کا مقابلہ شانہ بشانہ کوششوں سے کیا جائے : عبداللطیف آل الشیخ
اسلامی امور، دعوت و ارشاد کے سعودی وزیر ڈاکٹر عبداللطيف آل الشيخ نے دنیا کے مختلف حصوں میں مملکت کے انسانی کردار اور عالمی مقام کو باور کرایا ہے۔ اس میں سعودی عرب کی جانب سے جی ٹوئنٹی اجلاس کی صدارت، کرونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں عالمی کوششوں کو زیر بحث لانے کے لیے مذہبی اقدار کے فورم کا انعقاد اور انسانی معاشروں کو درپیش دیگر مسائل شامل ہیں۔
آل الشیخ نے یہ بات منگل کی شام ریاض میں مذہبی اقدار کے فورم کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ فورم کا انعقاد 'شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز عالمی مرکز برائے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ' نے کیا۔
سعودی وزیر کے مطابق مملکت کی دانش مند قیادت نے کرونا کا مقابلہ کرنے کے لیے دین اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کو اختیار کیا جن میں مفاسد کو دور کرنے کو مفادات کے حصول پر مقدم رکھا گیا ہے۔ لہذا ہلاکت سے بچنا اور بچانا لازم قرار پایا ہے۔
آل الشیخ نے باور کرایا کہ دنیا کو اس وقت بدترین وباؤں میں سے ایک وبا کا سامنا ہے جس کے صحت، انسانیت، معیشت اور سماج کے لحاظ سے الم ناک اثرات مرتب ہوئے۔ حکومتوں، مذہبی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں اور قومی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرنے اور افراد اور معاشروں پر اس کے اثرات کم کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ کوویڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے جو نمونہ پیش کیا ہے وہ دیگر ممالک کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے احتیاطی اقدامات اور حفاظتی تدابیر کو سعودی سینئر علماء کمیٹی کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ان کے علاوہ اسلامی امور کی سعودی وزارت کی جانب سے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ رابطہ کاری سے متعدد احتیاطی اقدامات انجام دیے گئے جنہوں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر عبداللطيف آل الشيخ نے زور دیا کہ انسانی معاشروں میں شدت پسندی اور نسلی پرستی کے رجحانات اور اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری اور قومی مذہبی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کو شانہ بشانہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح معاشروں کی ثقافت، تعلیمی نظام اور روایتی و جدید ذرائع ابلاغ میں اعتدال اور رواداری کی اقدار کی جڑیں مضبوط بنائی جانی چاہئیں۔