متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا ہے کہ متعدد عرب ممالک اس وقت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے مختلف مراحل میں ہیں۔
انھوں نے یہ انکشاف امریکی تھنک ٹینک اطلانتک کونسل کے زیر اہتمام ورچوئل گفتگو میں کیا ہے۔ان کے بہ قول متعدد عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کررکھا ہے اور وہ (معاہدے یا سمجھوتے طے پانے کے) مختلف مراحل میں ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے خطے کو ایک تزویراتی پیش رفت کی ضرورت ہے۔‘‘
انورقرقاش کے بہ قول ’’یو اے ای کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ’’گرم جوشی‘‘ سے آگے بڑھیں گے کیونکہ ہم نے اردن اور مصر کی طرح اسرائیل کے ساتھ کوئی جنگ نہیں لڑی ہے۔‘‘
انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’’اسرائیل میں یو اے ای کا کوئی بھی سفارت خانہ تل ابیب میں کھولا جائے گا، یروشلیم (مقبوضہ بیت المقدس) میں نہیں۔‘‘
یادرہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلیم میں میں منتقل کردیا تھا اوراس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا تھا۔
اسرائیل تمام مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی القدس کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں اور شہر کے اس حصے میں تین لاکھ 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔
اسرائیل نے یو اے ای کے ساتھ امن معاہدے کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی سرزمین کو ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔انورقرقاش کے بہ قول ہماری سوچ کے مطابق یہ ایک اہم اقدام ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’ یو اے ای اس معاہدے کو ایک موقع خیال کرتا ہے کیونکہ ہم سے فلسطینی ہمیشہ یہ تقاضا کرتے رہتے تھے کہ اسرائیل کی غرب اردن کے علاقوں کو ضم کرنے کی کارروائیاں رکوانے کے لیے ہماری مدد کی جائے۔ اب ہم نے ان کے انضمام کی معطلی کو معاہدے کا حصہ بنا کر ایک اچھی ڈیل کی ہے۔‘‘
انور قرقاش کا کہنا تھا کہ یو اے ای کی امریکا کی دونوں جماعتوں کی جانب سے سمجھوتے کی حمایت پر حوصلہ افزائی ہے۔امریکا کے ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو طے کرانے میں فعال کردار ادا کیا ہے جبکہ ان کے حریف ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
’’ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ اس ڈیل کے بعد ہماری امریکا کے ساتھ تزویراتی شراکت داری میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ مزید مضبوط ہوگی۔‘‘ انور قرقاش کا کہنا تھا۔ان کا اشارہ اسرائیل کے ساتھ تاریخی معاہدے کی طرف تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ جمعرات کو اس امن معاہدے کا خود اعلان کیا تھا۔