اقوام متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کے لیے کام کرنے والی امدادی ایجنسی (اُنروا) کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں حالیہ تشدد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق اوسط کے دیرینہ تنازع کے منصفانہ حل کا کوئی متبادل نہں۔اس کے سوا فلسطینیوں کے لیے مناسب روزگار سمیت بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔
اُنروا کے کمشنر فلپ لازرینی نے غزہ میں گیارہ روزہ جنگ کے بعد پہلے انٹرویو میں فلسطینی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔انھوں نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ فلسطینی اسرائیلی تنازع کے حل کے لیے ’’حقیقی‘‘ سیاسی راہ اختیار کی جائے تاکہ ہر دوچار سال کے بعد ہونے والی لڑائی کے سلسلے کو روکا جاسکے۔
انھوں نے عالمی برادری پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے اور اُنروا کی مالی معاونت کرے تاکہ جنگوں سے متاثرہ فلسطینی مہاجرین کو معمول کی زندگی گذارنے میں مدد دی جاسکے۔
فلپ لازرینی نے جنگ بندی کے بعد غزہ کا دورہ کیا ہے اور وہاں اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہ کاریوں کا بہ چشم خود جائزہ لیا ہے۔اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں قریباً ڈھائی سو فلسطینی شہید اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔
انھوں نے اُنروا کے سربراہ کو بتایا کہ وہ اسرائیلی بمباری میں اپنے مکانوں کی تباہی کے بعد بکھر کررہ گئے ہیں اوراس وقت ایک ہی خاندان کے افراد کسی ایک جگہ رہنے کے بجائے مختلف اپارٹمنٹ عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔
لازرینی نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلیم) میں واقع اپنے دفتر سے العربیہ سے ویڈیو انٹرویو میں کہا:’’آپ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ لوگ تشدد کے ایک دور سے دوسرے دور تک بہت زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں اور اب تو ان کی برداشت کی حد ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
لارزینی نے ایک سال قبل ہی اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے سربراہ کا منصب سنبھالا تھا لیکن اس عرصہ کے دوران میں ان کے ادارے کو سب سے مشکل چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ امریکا اور بعض دوسرے ممالک نے اس کے بجٹ میں کٹوتی کردی تھی۔پھر کووِڈ-19 کی وبا نے آلیا اوراس کے مالی وسائل مزید سکڑ کررہ گئے تھے اور اب اسرائیل کی غزہ میں حالیہ جارحیت کے بعد اس ادارے کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’حالیہ لڑائی نے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ مہاجرین کی امداد اور بحالی کے لیے یہ ایجنسی کیوں ضروری ہے کیونکہ غزہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی تو فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے۔اس لیے ہمیں ایک مضبوط اُنروا درکار ہے۔‘‘
انھوں نے غزہ کی پٹی میں اُنروا کے زیراہتمام تعلیمی نظام پر باقاعدگی سے حملوں پر کڑی تنقید کی ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کے لیے اس ایجنسی کے تعلیمی نظام کو بالعموم تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔اس کا یہ کہنا ہے کہ اس کے ذریعے منافرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔
فلپ لازرینی نے انٹرویو میں بظاہر اس تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف اُنروا کے تعلیمی پروگرام ہی ایسے ہیں جن کے نصاب میں انسانی حقوق کی تعلیم شامل ہے اور صنفی مساوات اور دوسرے موضوعات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف یہی ایک چیز خطے میں تناؤ اور تشدد کا شکار لوگوں کے لیے تریاق کا کام دیتی ہے۔اس لیے ایک صحت مند اور قابل پیشین گوئی اُنروا کی ضرورت ہے۔
یادرہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اُنروا کو امریکا کی جانب سے مہیا کی جانے والی سالانہ امداد بند کردی تھی۔اس کی وجہ سے اس ایجنسی کو ملنے والی رقوم میں 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی تھی۔امریکا نے یہ اقدام فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے اور صدر ٹرمپ کی پیش کردہ ’’صدی کی ڈیل‘‘ کی حمایت پرآمادہ کرنے کی غرض سے کیا تھا۔
صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے گذشتہ ماہ اس امدادی رقم کے ایک حصے کی بحالی سے اتفاق کیا تھا اور انروا کے لیے مالی امداد کے طور پر 15 کروڑ ڈالر جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔لازرینی نے انٹرویو میں اس رقم کے انروا کو موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔تاہم انھوں نے غزہ کی تعمیرنو اور جنگ سے متاثرہ فلسطینی مہاجرین کے لیے مزید امداد مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔