حزب اللہ کے لیے بُرا ہفتہ
حزب اللہ کے لیے گزرا ہفتہ کوئی اچھا نہیں رہا ہے۔ لبنانی حکومت نے ملک کے لیے بین الاقوامی بیل آؤٹ سے بچنے کی متعدد کوششوں کے باوجود بالآخر یہ اعلان کر ہی دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی (آئی ایم ایف)سے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے قرض لے گی۔اس نے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک امدادی منصوبے پر دست خط کردیے ہیں۔اس دوران میں جرمنی نے حزب اللہ کے عسکری اور سیاسی ونگ دونوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کردیا، اس کی ملک میں تمام سرگرمیوں پر پابندی عاید کردی اور اس سے وابستہ جگہوں پر چھاپا مار کارروائیوں کا حکم دے دیا۔چناں چہ جرمن سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں حزب اللہ سے وابستہ مساجد اور تنظیم کے دفاتر پر چھاپا مار کارروائیاں کی ہیں۔
آئی ایم ایف کا مخمصہ
یہ بات یقینی ہے کہ وزیراعظم حسن دیاب کی حکومت نے حزب اللہ کی سبز جھنڈی اور منظوری کے بعد آئی ایم ایف سے امدادی پیکج کے لیے رجوع کیا ہے لیکن اس اقدام کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حزب اللہ شاید ایک ایسے نقطے پر پہنچ چکی تھی کہ جہاں کسی حقیقی منصوبے کے بغیر لبنانی عوام کو مکمل مالیاتی بحران سے بچانا ممکن نہیں رہا تھا۔اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے کا تھاکہ حزب اللہ خواہ لبنان کی سیاسی اشرافیہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی یا غوغا آرائی کا رُخ ملک کے بنک کاری کے شعبے کی جانب پھیر دیتی،یہ اب کوئی سربستہ راز نہیں رہا ہے کہ حزب اللہ ہی لبنانی حکومت کومالیات اور معیشت سمیت فیصلوں ڈکٹیٹ کراتی ہے۔
حزب اللہ اور توسیعی طور پر حزب اللہ کی حمایت یافتہ حکومت نے گذشتہ ہفتے ایک امدادی منصوبہ وضع کیا تھا اور پھر اس نے آئی ایم ایف کو باضابطہ طور پر مالی امداد کی درخواست کردی تھی۔حتٰی کہ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ نے گذشتہ سوموار کو اپنی نشری تقریر میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی لیکن بعض شرائط کا یوں اظہار کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی کسی بھی امداد کا معاملہ ’’عظیم ذمے داری اور کمال محتاط کے ساتھ نمٹایا جائے۔‘‘
تاہم، اگر اس منصوبے کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے بجلی اور سرکاری شعبے کے حجم وغیرہ میں جن بنیادی اصلاحات کی درخواست کی ہے،ان کا اس میں سرے کوئی ذکر نہیں ہے۔ لبنان میں بین الاقوامی تشویش کا سبب سرحدی گذرگاہوں کی نگرانی اور اسمگلنگ کی سرگرمیوں کی روک تھام ایسے معاملات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔یہ تمام امور حزب اللہ کی نگرانی ہی میں انجام پاتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے واضح طور پر لبنان سے سنجیدہ اصلاحات کا تقاضا کیا ہے اور ان کے بغیر لبنان کو بیل آؤٹ پروگرام کی مد میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔لبنانی معیشت مزید زبوں حال ہوگی اور حزب اللہ ہی کو خرابیوں کا مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔اگر حزب اللہ اور اس کی حمایتی حکومت اس طرح کے کسی منظرنامے سے بچنا چاہتی ہے تو انھیں مجوزہ اصلاحات پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ان کے نتیجے میں حزب اللہ کی اقتدار پر گرفت اور اثاثوں پر کنٹرول محدود ہو کر رہ جائے گا۔یہ ایک ایسا مخمصہ ہے جو از خود حل نہیں ہوگا اور حزب اللہ اس کے درمیان میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
جرمنی کی پابندی
جب آئی ایم ایف کو امدادی پیکج کے لیے پیش کی جانے والی درخواست پر حسن دیاب دست خط کررہے تھے تو عین اسی لمحے جرمنی نے حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری ونگ دونوں کو دہشت گرد قراردے دیا۔یہ اگرچہ کوئی حیران کن فیصلہ نہیں تھا کیونکہ جرمنی نے بہت پہلے حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کا اشارہ دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود اس کو حزب اللہ پر ایک بھاری وار سمجھا جارہا ہے۔
جرمنی نےماضی میں حزب اللہ اور بین الاقوامی برادری کے درمیان متعدد مرتبہ ایک مصالحت کار یا ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔جولائی 2006ء کی جنگ کے بعد اس نے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔
لیکن اب حزب اللہ سفارتی محاذ پر جرمنی کو کھو بیٹھی ہے اوراگر اس کا آیندہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اس کو جرمنی میں کوئی مددگار ہاتھ نہیں ملے گا۔ البتہ جرمنی کے اس حالیہ اقدام کی روشنی میں ان دوسرے یورپی ممالک کے مؤقف کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جنھوں نے ابھی تک حزب اللہ کا مکمل طور پر بائیکاٹ نہیں کیا ہے اور اس کے صرف عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دیا ہے لیکن سیاسی ونگ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ان میں فرانس بھی شامل ہے،اس کے فوجی اقوام متحدہ کے تحت لبنان اوراسرائیل کے لیے امن فوج میں شامل ہیں اور ان دونوں ملکوں کے درمیان واقع سرحدی علاقے میں تعینات ہیں۔اس لیے فرانس لبنان میں جوں کی توں صورت برقرار رکھنا چاہے گا اور اس کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤسے گریز بہت مشکل ہوجائے گا۔
مالیاتی طور پر بھی حزب اللہ یورپ میں ایک بڑے مالیاتی ذریعے سے محروم ہوکر رہ گئی ہے۔اس لبنانی تنظیم کے مالی امور پر اس کے پشتیبان ایران پر امریکا کی پابندیوں کے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔چناں چہ وہ اب رقوم کی فراہمی کے لیے متعدد متبادل قوتوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔حزب اللہ نے لبنان سے شام اور وہاں سے عرب دنیا تک منشیات کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں کے علاوہ اپنی سماجی اور خیراتی تنظیموں کے ذریعے مالیاتی کارروائیوں کو تیز کردیا ہے۔
جرمنی نے حزب اللہ سے وابستہ بڑی سماجی اور خیراتی تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عاید کردی ہے۔جرمنی پولیس نے 30 اپریل کو برلن ، بریمن ، موئنسٹر ، ریکلنگوسن اورڈارٹمنڈ میں حزب اللہ کی پانچ مساجد اور کمیونٹی مراکز پر چھاپا مار کارروائیاں کی تھیں۔
گذشتہ ہفتہ حزب اللہ کے لیے کوئی اچھا نہیں رہا تھا لیکن اس گروپ کے مسائل جلد یا بدیر حل ہونے کے نہیں۔اگر بعض یورپی ممالک فی الوقت اس گروپ کے سیاسی ونگ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں تویہ ترجیح شاید بہت جلد تبدیل ہوجائے کیونکہ انھیں جب یہ ادراک ہوگا کہ داخلی امور بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی پرفوقیت کے حامل ہیں تو وہ اپنی ترجیحات تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے۔
مزید برآں آئی ایم ایف لبنانی حکومت سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اصلاحاتی منصوبے میں ترمیم کرے اوراس میں بجلی کے شعبے کو بھی شامل کرے جہاں اس وقت سب سے زیادہ بدعنوانیاں ہورہی ہیں۔نیز سرحدوں پر غیر قانونی سرگرمیوں کو بھی اس دائرہ کار میں لایا جائے۔تب لبنانی حکومت اور حزب اللہ کے پاس صرف ایک انتخاب ہوگا:لبنان کو بچا لیا جائے اور کچھ کھودیا جائے یا اصلاحات سے انکار کیا جائے اور سب کچھ کھو دیا جائے۔