چین سے لگا تار دو دن سے بڑی خبریں آئی ہیں۔ ایک روز پہلے صدر شی جن پنگ کے مسلسل تیسری بار جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہونے اور اگلے روز بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے 'نارملائزیشن' کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ دونوں خبریں خطے ہی نہیں پوری دنیا کے لیے بڑا پیغام بنی ہیں۔ چین کے عظیم قائد صدر شی کے تیسری بار صدر منتخب ہونے کا پہلے بھی اندازہ تھا کہ اس سلسلے میں چین میں 'پراسس' پچھلے سال سے شروع ہو چکا تھا۔
مگر دوسری بڑی خبر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو 'نارملائز' کرنے کا فیصلہ کئی حوالوں سے غیر معمولی اور حیران کن خبر کے طور پر سامنے آیا۔ 2016 سے دونوں ملکوں کے درمیان معاملات سنگین تر ہو چکے تھے۔ 6 مارچ 2023 سے چین کی میزبانی میں غیر علانیہ مذاکرات کے بعد جمعہ کی صبح پانچویں روز ان دونوں ملکوں کے درمیان 'نارملائزیشن' کا سورج طلوع ہوا۔
سعودی عرب اور ایران کی اس 'نارملائزیشن' کے اعلان کی خبر اس تناظر میں مزید اہم ہے کہ حالیہ برسوں میں دونوں ملک بالواسطہ ہی سہی جنگی کیفیات کا شکار رہے ہیں۔ اس اعلان کے نتیجے میں اس ساری بدامنی کی فضا میں امن کاری کا ایک بڑا قدم سامنے آیا ہے۔
یہ بھی اہم بات ہے کہ چین کی میزبانی میں دونوں برادر ملکوں کے سلامتی سے متعلق امور کے اہم عہدیداروں مساعد بن محمد العیبان اور علی شمخانی نے حصہ لیا، طویل مذاکرات کیے اور دوطرفہ سلامتی کے علاوہ علاقائی و عالمی سلامتی کے لیے خطرات کے جاری عمل سے خود کو امن راستے پر یکسو کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ صدر شی کے زیر قیادت میں جہاں چین اپنی ایک نئی شناخت ابھارتا چلا جا رہا ہے۔ وہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز کے زیر قیادت سعودی عرب حیران کن انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
اس موقع پر بھی سعودی ولی عہد کے فیصلہ کن اور بےدھڑک انداز کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان نارملائزیشن کی حیران کن خبر جنم نہ لیتی۔ اس واقعے کی بازگشت اگلے کئی ماہ تک عالمی سطح پر خوب سنی جاتی رہے گی۔ جبکہ اس اعلان کی بنیاد پر اگلے بڑے قدم کے طور پر سعودیہ اور ایران دونوں ملکوں کے سفارتخانے مکمل طور پر متحرک و فعال ہو جائیں گے۔
سعودی ایران 'نارملائزشین' کے اس اعلان میں دونوں ملکوں کی سلامتی کے حق کو واضح طور پر تسلیم کرتے ہوئے عدم مداخلت کے اصول کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 17 اپریل 2021 کے معاہدے کے تحت ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے دو طرفہ سلامتی کے معاہدے کی روح کے مطابق بقائے باہمی کو فوقیت دی جائے گی۔ نیز 27 مئی 1998 کے دو طرفہ معاہدے کے تحت تجارت، معیشت وسرمایہ کاری، کھیل و ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔
یہ دیر آید درست آید کی ایک بڑی مثال ہے۔ ایران کے ساتھ ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کا نارملائزیشن کے لیے خود کو آمادہ وتیار کرنا ایران کے لیے غیر معمولی اور مفید تر ہو گا۔ ایرانی حکومت ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے جس اندرونی خلفشار اور امریکی و مغربی ممالک کی پابندیوں کی زد میں ہے، سعودی عرب کے ساتھ معاملات میں بہتری اس کے لیے بطور خاص بڑی پیش رفت ہو گی۔ یقیناً اس کے نتیجے میں ایران کے لیے زیادہ ذمہ دارانہ انداز کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ بجائے اس کے ایران 'رجیم چینج' کے دھانے سے بدامنی، انتشار اور عدم استحکام کی کھائیوں میں زیادہ جا گرے۔
سعودی عرب نے ایران کے لیے ان مشکل ترین حالات میں 'نارملائزیشن' کا فیصلہ کر کے ایران کے لیے ہی نہیں خطے کی سلامتی، استحکام اور محفوظ مستقبل کے لیے ایک ہی جست میں بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ یہ موقع سعودی عرب کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ ترقی کے سفر پر تیزی سے گامزن سعودی عرب اب کئی الجھنوں سے محفوظ ہو جائے گا۔ اس میں خطے اور اڑوس پڑوس کے دیگر ممالک کے لیے بھی سبق اور پیغام ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جن چند ایک امور پر اتفاق کے لیے کوششیں جاری ہیں، ان کوششوں کے لیے بھی پیش رفت کا نیا راستہ نظر آئے گا اور خطے میں دیرپا امن کا خواب دیکھا جاسکے گا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کے تعاون سے سامنے آنے والی اس پیش رفت کے بعد بڑی حد تک خطے میں بدامنی کے نئے خطرے کا راستہ رک گیا ہے۔ یہ کہنا قدرےمشکل ہے کہ خطرہ مکمل ٹل گیا ہے۔ لیکن اس میں کافی کمی کا امکان بہرحال پیدا ہو گیا ہے۔ روس یوکرین کی جنگ ایک سال سے متجاوز ہو چکی ہے۔ اس جنگ کا ایک سال گزرنے کے بعد یہ خدشات بڑھ رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں بھی کوئی جنگی واردات شروع ہو سکتی ہے۔ امریکی و اسرائیل کی تاریخ کی حالیہ سب سے بڑی اور جامع فوجی مشقیں خطرناک اشارے دے چکی ہیں۔ بیجنگ میں تازہ پیش رفت کے بعد بظاہر خطے میں جنگی خطرات کم ہو گئے ہیں۔
امریکہ نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان 'نارملائزیشن' کے اس اہم فیصلے کی ابتدائی طور پر تحسین کی ہے۔ مگر یہ تحسین ابتدائی نوعیت کی ہے۔ اسرائیل میں اس واقعے پر کافی پریشانی ہے۔ یہ پریشانی آنے والے دلوں میں کس شکل میں متشکل ہوتی ہے، فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ اسرائیل میں اس وقت دائیں بازو کی غیر معمولی انتہا پسند جماعتوں کی حکمرانی ہے۔ جن کا فلسطینیوں کے ساتھ تو درکنار اپنے ملک کے اداروں اور عوام کے ساتھ رویہ بھی پہلے روز سے معاندانہ نظر آ رہا ہے۔ اس حکومت کے غیر رسمی ردعمل میں سعودی ایران پیش رفت پر تشویش کا اظہار بہ انداز دگر سامنے آیا ہے۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کئی ملکوں نے چین سے خطے میں چَین لانے کی خبروں کی آمد کی والہانہ پذیرائی کی ہے۔ موسم بہاراں میں سلامتی اور چَین ہی نہیں دو طرفہ تعاون و ترقی کے لیے آگے بڑھنے کا فیصلہ اہم ہے۔ چین کے صدر شی اور سعودی ولی عہد کے زیر قیادت یہ پیش رفت عالمی برادری اور خطے کو نئے راستوں کی طرف لاسکنے کا پورا 'پوٹینشیل' رکھتی ہے۔