قابض طاقت جمہوریت کا مینارہ نہیں بن سکتی!
اسرائیل اپنے قیام کی 75ویں سالگرہ منارہا ہے، ہر اسرائیلی کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ قبضہ ملک کے یومِ آزادی کو داغدارکرتا ہے اور یہ کہ اسرائیل اس وقت تک حقیقی جمہوریت نہیں بن سکتاہے اور نہ ہی رہے گا جب تک کہ وہ ایک قابض طاقت ہے۔
میں ان ہزاروں،لاکھوں اسرائیلیوں کی تعریف وتوصیف نہیں کرسکتا جنھوں نے ضروری ’’اصلاحات‘‘کے بہانے اسرائیلی عدلیہ کو تباہ کرنے کے نیتن یاہو حکومت کے منصوبے کے خلاف مسلسل 15 ہفتوں تک احتجاج کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو اور ان کے وزیرانصاف لیون اسرائیل کی سپریم کورٹ کو پارلیمان (کنیست)میں سادہ اکثریت کی مرضی کے تابع کرنا چاہتے تھےاوران کی حکومت کےمنتخب کردہ نمائندوں کی زیادہ تعداد کے ساتھ ایک کمیٹی میں ججوں کےتقررپر تلے ہوئے تھے۔ اگر اس طرح کی قانون سازی ہوتی ہے تویہ امرحکومت کو بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے لامحدود اختیارات دینے کے مترادف ہوگا او جمہوریت کی اس بنیاد کو تباہ کر دے گا جس پرملک کی بنیاد رکھی گئی تھی اور جس پر اسرائیلی خصوصی طورپراحساس تفاخرکرتے ہیں۔
ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ اگرچہ اسرائیلیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کا ملک ایک جمہوریت ہے اور اسے بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اکثر اسے مشرق اوسط کی واحد جمہوریت قرار دیتے ہیں، لیکن جس چیز کو وہ نظرانداز کردیتے ہیں،وہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ایک ہی وقت میں جمہوریت ہونے اور قابض طاقت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ درحقیقت، اسرائیل دومختلف قوانین اورقواعد کا اطلاق کرتا ہے۔ایک جو اسرائیلی شہریوں (بشمول مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں) کو کنٹرول کرتا ہے جوانھیں تحفظ اور سماجی، معاشی اور سیاسی آزادیاں دیتا ہے۔اس کے مقابلہ میں فوجی قوانین ہیں جو زیر قبضہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں،یہ کسی بھی تعریف کے لحاظ سے جمہوریت سے مکمل طور پر متضاد ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیلی اس بے رحم قبضے سے اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں؟انھوں نے ایک بار بھی اس کے تسلسل کے خلاف احتجاج نہیں کیا، گویا یہ ایک عام ریاست تھی جس کا قابض یا قابضین پر کوئی اثرنہیں پڑتا؟
عوامی تلخی
سب سے پہلے، ایک کے بعد ایک اسرائیلی حکومتیں، خاص طورپرسنہ 2000ء میں دوسری انتفاضہ تحریک کے بعد سے، جس کے دوران میں قدامت پسند حکومتیں بڑی حد تک برسراقتدار تھیں، منظم طریقے سے فلسطینیوں کے خلاف سخت عوامی بیانیے میں مصروف رہی ہیں،اورانھیں ایک کٹڑ اورناقابل قبول دشمن کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں۔ فلسطینیوں کواس طرح دیدہ ودانستہ ،جان بوجھ کر پیش کیا گیا تھا، حالانکہ ہر اسرائیلی حکومت اچھی طرح جانتی تھی کہ فلسطینی کبھی ان کے ملک کے خلاف قابل اعتماد وجودی خطرہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
اس کے باوجود ارباب اقتداروسیاست عوامی سطح پرفلسطینیوں کی مذمت کو فروغ دیتے رہتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو فروغ دے رہے ہیں۔ان کا یہ کراراب اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات کی وضاحت کرتا ہے۔ایک شخص کو دوسرے کے خلاف کھڑاکرنے والے تلخ عوامی بیانیے واضح طورپرتعاون کے بجائے تنازعات کو فروغ دیتے ہیں اور یہ ایک فعال جمہوریت کے لیے مضرہیں۔
شعورکا فقدان
زیادہ تراسرائیلیوں کو قبضے کی بے رحمی اور فلسطینیوں کے دن رات کےدکھوں ،مسائل اور مصائب کے بارے میں بہت کم علم ہے۔وہ نہیں جانتے کہ فلسطینی کون سی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔اگر اسرائیلی رات کے وقت چھاپامار کارروائیوں کو دیکھ سکتے ہیں جن کے دوران میں نوجوانوں اور بوڑھوں کوخوفزدہ اورہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ اگربے جرم اوربلاامتیاز قید، گھروں کی مسماری، آبائی علاقوں اور مکانات سے وجبری بے دخلی، نجی زمینوں کی ضبطی، درختوں کو اکھاڑنا، چیک پوائنٹس کی توہین ، آبادکاروں کی طرف سے توڑ پھوڑاور(محض شک کی بنا پر)گولی مارکر فلسطینیوں کو ہلاک کرنے والے خوشیاں مناتے فوجیوں کو دیکھ سکتے ہیں، تو انھیں یقینی طورپراس بات کا بہتر اندازہ ہوگا کہ قبضہ کیوں پائیدارنہیں ہے اوریہ ایساکیوں نہیں ہوسکتا لیکن یہ سب ہراس انسانی قدرکے برعکس ہے جس کو وہ اتنی اونچی رکھتے ہیں۔
اگراپنی جمہوریت کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے لاکھوں اسرائیلیوں میں سے کچھ کوبھی ایک دن کے لیے وہ تجربہ ہوتاجو فلسطینی ہرروزقبضے میں برداشت کرتے ہیں، توانھیں احساس ہوتا کہ اسرائیل کی جمہوریت کتنی ٹوٹ پھوٹ اورضعف واضمحلال کا شکارہے اور یہ مطالبہ کرنا کتنا شرمناک ہے کہ وہ ایک آزاد معاشرے میں رہنے کے حقدار ہیں جبکہ فلسطینی اسرائیل کی غلامی میں زندگی بسرکررہے ہیں۔
مغربی کنارے پر56سال کے قبضے کے بعد اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے فلسطینیوں کے ساتھ تنازع کا حل تلاش کرناچھوڑ دیا ہے اور’اسٹیٹس کو‘کوایک مستقل ریاست کے طور پر قبول کرنے لگے ہیں جس کے ساتھ وہ آرام سے رہتے ہیں۔نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی حکومتیں کھلے عام یہ کہتی ہیں کہ ان کی نگرانی میں کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی اور وہ تشدد کے باربار بھڑکنے کے باوجود صورت حال کوجوں کا توں برقرار رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں، جسے اسرائیل نے قابل قبول قیمت پرکنٹرول کرنا سیکھا ہے۔
یہ تصورکہ صورت حال کوغیرمعیّنہ مدت تک برقراررکھا جا سکتا ہے،مکمل طورپرگمراہ کن ہے، کیونکہ اس بات کا کوئی اشارہ ہے اورنہ ہی اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ فلسطینی کبھی اپنی ریاست قائم کرنے کے اپنے حق سے دستبردار ہوں گے۔حالیہ برسوں میں اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پرجابرانہ قبضہ ناقابل برداشت ہوتاجارہا ہے، اسرائیلیوں کے خلاف ناراضی اور نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے، اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے والے تشدد میں اضافہ ہورہا ہے، اورمایوسی اورناامیدی سب کو کھا رہی ہے، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچاہے۔اسرائیلیوں نے یہ دھماکاخیزماحول پیدا کرنے میں مددکی۔ اب یہ صرف وقت کی بات ہے کہ اگلا دھماکاکب ہوگا۔جمہوریت اس طرح کام نہیں کرتی اوراسرائیلیوں کو جلدسے جلد اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فلسطینیوں کےاسرائیل کوتباہ کرنے کےعزائم
پے درپے آنے والی اسرائیلی حکومتیں اس خیال کو فروغ دے کرعوام کی برین واشنگ کررہی ہیں کہ اگر فلسطینی اپنی ریاست قائم بھی کر لیں تو بھی اسرائیل کو مکمل طورپرختم کرنے کے ان کے حتمی مقصد کا یہ پہلا مرحلہ ہوگالیکن فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرنے والے کسی بھی اسرائیلی رہنما نے کبھی اپنے اس موقف کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا سوائے اس کے کہ کچھ فلسطینی عسکریت پسندوں کی خالی بیان بازی کا استعمال کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ درحقیقت اسرائیل کی تباہی ان کا قومی مقصد ہے۔ کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ فلسطینی کس طرح، فوجی یا کسی اور طریقے سے اس طاقتوراسرائیلی فوجی مشین کے خلاف اس طرح کے وہم کو محسوس کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی کسی بھی پرتشدد اشتعال انگیزی کوکچل سکتی ہے؟
تاہم،اس طرح کے مضحکہ خیزبیانیے کو فروغ دے کر اسرائیلی حکومت نہ صرف قبضے بلکہ مزید علاقوں کو ضم کرنے، موجودہ اورغیر قانونی بستیوں کو وسعت دینے، فلسطینیوں کو اکھاڑ پھینکنے اور اپنے فلسطینی باشندوں کے بڑے علاقوں کو فوجی تربیت کے لیے خالی کرانے کی اپنی مہم کا 'جواز' پیش کرسکتی ہے۔ یہ سرگرمیاں قومی سلامتی کے نام پر منظم طریقے سے کی جاتی ہیں اور بدقسمتی سے اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس مذموم منصوبے کوخرید رہی ہے۔
قبضے کو معمول پر لانا
زیادہ تراسرائیلیوں کے لیے قبضہ کیسے معمول کی حالت بن گیا،اس کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے، اعداد وشمارکی ایک کہانی بیان کی جاتی ہے: تمام اسرائیلیوں میں سے 80 فی صد 1967 میں قبضے کے آغاز کے بعد پیدا ہوئے تھے۔56 سال سے کم عمرکے ہر اسرائیلی شہری کے لیے،چاہے وہ فوجی ہو، طالب علم ہو،اسکالر ہو،فوجی کمانڈرہو، میڈیکل ڈاکٹرہو، بلڈر ہو، بڑھئی ہو، کیوریٹر ہو، تاجر ہو، انجینئر ہو یا سرکاری افسر ہو،جو لوگ اسے (قبضے کو)ختم کرنا چاہتے ہیں وہ بڑی حد تک بے حس ہوچکے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے بارے میں عوامی طور پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں، تنازع کے خاتمے کے لیے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اشد ضرورت کی کھل کر وکالت کرنا تو دورکی بات ہے۔
قریباًروزانہ فلسطینیوں کا قتلِ عام معمول بن چکا ہے اوربہت سے اسرائیلی عارضی طور پر اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ایک عسکریت پسند فلسطینی ایک اسرائیلی یہودی کو قتل کردیتا ہے۔خاص طورپرانتہا پسند دائیں بازو کے اسرائیلیوں کی جانب سے انتقام اوربدلے کے مطالبے گونج اٹھتے ہیں،سکیورٹی فورسز فوری طور پر مجرموں کی تلاش کے لیے قطار میں لگ جاتی ہیں، اکثرفائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے، فلسطینی مزاحمت کاراکثرمارے جاتے ہیں، اور افسوس کی بات ہے کہ معصوم فلسطینی شہری اکثر اس فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں اوراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔اسرائیلی بدلے کاکام آباد کاروں پر بھی چھوڑدیتے ہیں کہ وہ کسی بھی فلسطینی سے بدلہ لے کر اپنے ظالمانہ اعمال خود انجام دیں۔انھیں مجرم یا بے گناہ سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔ فلسطینی گاؤں حوارہ کے خلاف آبادکاروں کی مسلح کارروائی ان کی سفاکیت کی ایک خوف ناک مثال پیش کرتی ہے۔ ایک یا دو دن بعد اسرائیلی یہودی سب کچھ بھول جاتے ہیں،لیکن شیطانی چکرجاری رہتا ہے۔یہ اسرائیلی طرز کی جمہوریت ہے۔
اس بات پرزور دینا انتہائی ضروری ہے کہ "قبضے کو معمول پرلانے کی روش نے نوجوان اسرائیلیوں کو فلسطینیوں کی حالت زار کے بارے میں تیزی سے بے حس بنا دیا ہے اوران کی تعلیم اور تربیت کے نتیجے میں وہ ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئے ہیں جو ایک بہتر اور امید افزا مستقبل کے لیے بہت کم یا کوئی امیدنہیں رکھتے ہیں۔لیکن جب فلسطینیوں کے درد اور مصائب کے بارے میں یہ بے حسی اسرائیلی نوجوانوں کے لیے ایک معمول کی ذہنی کیفیت بن جاتی ہے تو یہ ان سے ان کی اپنی انسانیت اوروقار کو چھین لیتی ہے۔انھیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ انھیں نفسیاتی طور پر اپنے نوجوان فلسطینی ہم عمروں کے تئیں اتنا بے حس کیسے بنادیا گیا ہے۔فلسطینی تو خوف اورغیریقینی صورت حال میں رہتے ہیں جبکہ نفرت اورانتقام ان کی مزاحمت کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔
متذکرہ بالا اسرائیلیوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں بتاتا کہ فلسطینی کسی بھی معیار سے بے گناہ ہیں۔انھوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں۔انھوں نے اکثر تشدد کا سہارا لیا ہے اور ماضی میں امن قائم کرنے کے بہت سے مواقع گنوائے ہیں کیونکہ وہ سب کے لیے گئے تھے مگرکچھ بھی حاصل نہیں کیا۔اب یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ غالب طاقت کی حیثیت سے دو ریاستی حل کی بنیاد پرامن کے حصول پر آمادگی ظاہرکرے،تنازع کی حرکیات کوتبدیل کرے اور فلسطینیوں کوامتحان میں ڈالتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے اپنے ارادے کا مظاہرہ کرے۔بہ صورت دیگر اسرائیل کا سماجی تانا بانا بکھرتا رہے گا، اس کے علاقائی پرتشدد تنازعات شدت اختیار کریں گے اور اس کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہوجائےگی۔ اسرائیل ایک آزاد،مضبوط اور منصفانہ یہودی ریاست کے خواب کوچکنا چورکردے گا جس پرہریہودی فخرکرتا ہے،اپنے دوستوں کی تعریف کرتا ہے اور اپنے دشمنوں سے حسد کرتا ہے۔
قبضے کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیل کی جمہوریت کی روشنی ماند پڑنے لگی تھی۔اب وقت آگیا ہے کہ لاکھوں اسرائیلی مظاہرین، جو اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں،اس حقیقت کا سامنا کریں: قبضہ مغربی کنارے میں تیس لاکھ فلسطینیوں کواس سب کچھ سے محروم کررہا ہے جو یہ اسرائیلی مظاہرین اپنے لیے چاہتے ہیں۔
حتیٰ کہ اگرمظاہرین نیتن یاہوکے خطرناک عدالتی منصوبے پرغالب آجاتے ہیں توپھر بھی وہ اسرائیل کی جمہوریت کواس وقت تک نہیں بچاسکیں گے جب تک کہ وہ مسلسل سڑکوں پر نہیں نکلتے اوراس مرتبہ قبضے کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کرتے۔اسی صورت میں وہ اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر مشرقِ اوسط اور اس سے باہر جمہوریت کا مینار بنا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون پہلے سی این این عربی کی ویب گاہ پر شائع ہوا تھا۔
………….۔۔۔۔
اَلون بن مئیربغداد، عراق میں 1937ء میں ایک یہودی خاندان کے ہاں پیداہوئے تھے۔وہ امریکا میں مقیم مشرقِ اوسط کی سیاست اور امور کے ماہر ہیں۔ وہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان امن مذاکرات میں مہارت رکھتے ہیں۔ گذشتہ 25 سال کے دوران میں بن مئیرمختلف ٹریک ٹوسفارتی مذاکرات میں براہ راست شامل رہے ہیں اور’عرب امن اقدام‘ کے پرزور حامی ہیں۔وہ باقاعدگی سے عرب، ترک اور اسرائیلی حکام کے درمیان رابطہ کار کے علاوہ نیویارک یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل افیئرز میں سینیرفیلو کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں انھوں نے 18 سال تک مشرق اوسط اور بین الاقوامی مذاکرات پرکورسز پڑھائے ہیں۔نیویارک یونیورسٹی کے ورلڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں مشرق اوسط کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ دنیا بھر کے اعلی پالیسی سازوں کے ساتھ مباحثوں اور گفتگو کی ایک سیریز’’گلوبل لیڈرز: اَلون بن مئیر کے ساتھ بات چیت" کی میزبانی کرتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے امریکی محکمہ خارجہ میں باقاعدگی سے بریفنگ بھی دیتے ہیں۔