سعودی عرب جدجدیت اور ندرت فکر کے دور سے گذر رہا ہے تاہم اس کے ہنرمند اور فنکار اپنی کاوشوں سے مملکت کی تاریخ اور اصل کو منفرد انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ سعودی پلاسٹک آرٹسٹ قالب الدلح نے پچاس برس قبل جازان کی دیہی زندگی کے مناظر کو فن پاروں میں سمو کر سرانجام دیا ہے۔
الدلح نے فن پاروں کے ذریعے نصف صدی قبل کی اس زندگی کو فن پاروں کے ذریعے پیش کرنے کی کاوش کی ہے جو جازان ریجن کے دیہات میں عام تھی۔ وہ کس طرح کاشتکاری کرتے تھے۔ اس دور کے رسم و رواج کیا تھے۔ خاندان کے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ کس طرح بٹاتے تھے اورشادی بیاہ کی کیا رسمیں تھیں۔
الدلح نے بتایا کہ بچپن سے ہی پلاسٹک آرٹ عزیز ہے۔ انہوں نے آرٹ ٹریننگ حاصل کی۔ 1395 ھ مطابق 1975 میں پلاسٹک آرٹسٹ کی حیثیت سے سکول میں تعلیم بھی دی۔ پلاسٹک آرٹ میں ڈپلومہ کیا پھر یکے بعد دیگرے اس میں کئی ڈگریاں حاصل کیں۔
جازان سے تعلق رکھنے والے سعودی فنکار نے بتایا کہ اس نے جازان ریجن کے عوامی ورثے کو اپنے فن کا محور بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا تعلق جازان سے ہے۔ بچپن میں جو کچھ دیکھا اور جو اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اسے میں فن پاروں میں منتقل کرکے نئی نسل کے لیے محفوظ کر رہا ہوں۔
قالب الدلح کا کہنا ہے کہ بچپن میں تعمیری کاموں میں حصہ لیا۔ فصل کی کٹائی میں شرکت کی۔ کاشتکاری سے متعلق مختلف کام کیے اور اب میں ماضی کی ان یادوں کو تازہ کرکے فن پاروں کی شکل میں تبدیل کررہا ہوں۔
الدلح کا کہنا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہمارے یہاں سعودی عرب میں بھی عوامی ورثے کی ایک پہچان اور خوشبو ہے۔
سعودی آرٹسٹ نے مزید کہا کہ اپنے گھر کی ایک دیوار پر پچاس برس پرانے طرز تعمیر کو مرتسم کرکے جازان میں قدیم طرز تعمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پینٹنگ میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نصف صدی قبل جازان کے لوگ گھروں میں کس طرح رہتے تھے۔ مکانات کی تعمیر میں کیا کچھ استعمال کرتے تھے۔ کھیتی باڑی کا نظام کیا تھا۔ بچے سکول کس طرح جاتے تھے۔ اس وقت مسجدیں کس طرح بنائی جاتی تھیں۔
1975 سے جازان میں پرانے طرز کے مکانات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ پہلے جھونپڑپٹی کا رواج زیادہ تھا پھر لکڑی اور مٹی کے مکان بنے۔ گاڑیوں کا دور آیا اور اب ہر طرف عصر حاضر کی ترقی کے نشانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔