عراق میں امریکا کے دیرینہ حریف شیعہ لیڈرمقتدیٰ الصدر نے اپنا سیاسی لوہا کیسے منوایا؟

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

عراق کے دارالحکومت بغداد اور جنوبی شہروں میں فروری کی ایک یخ بستہ رات میں شیعہ رہ نما مقتدیٰ الصدر کے ہزاروں مسلح حامیوں نے شاہراہوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔وہ بندوقوں اور توپوں سے لدے پک اپ ٹرکوں پر سوار تھے۔سنہ 2000ء کے عشرے کے بعد مقبول شیعہ رہ نما کے حامیوں کی جانب سے عراق میں طاقت کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔

اس کے دوروز کے بعد مقتدیٰ الصدر عراق کے جنوبی شہر نجف میں اپنے مرکز میں نیوزکیمروں کے سامنے نمودار ہوئے تھے اور انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ان کے امن دستوں کو اہلِ تشیع کے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے تعینات کیا گیا ہے کیونکہ انھیں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہے۔عراق ان کے نیم فوجی دستوں کے بغیر غیرمحفوظ ہے کیونکہ عراقی سکیورٹی فورسز کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔‘‘

مقتدیٰ الصدر کے حامی اورمخالفین دونوں کے لیے ان کاپیغام بڑا واضح تھا:’’گذشتہ کئی سال کی خاموشی کے بعد اب وہ واپس آچکے ہیں؛شاہراہوں پر اور اقتدار کی راہ داریوں میں۔‘‘گذشتہ دو سال کے دوران میں مقتدیٰ الصدر کی سیاسی تنظیم صدری تحریک نے بڑی خاموشی سے عراقی ریاست کے ڈھانچے میں اپنی بالادستی قائم کرلی ہے۔اس کے ارکان داخلہ ، دفاع اور مواصلات کی وزارتوں میں اہم عہدوں پر تعینات ہوچکے ہیں۔انھوں نے سرکاری تیل کمپنی ، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے اداروں اور مرکزی بنک سمیت سرکاری بنکوں میں اپنے من پسند افراد کا تقرر کیا ہے۔

ان عہدوں سے صدریوں کو ریاستی طاقت کے علاوہ مالی اختیارحاصل ہوگیا ہے۔صدریوں یا ان کے اتحادیوں نے حال ہی میں جن وزارتوں میں اہم مناصب حاصل کیے ہیں،ان وزارتوں کا عراق کے 2021ء کے لیے تجویزکردہ 90 ارب ڈالر کے بجٹ میں ایک تہائی یا نصف حصہ ہے۔

عراق میں آیندہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی صدری امیدوار سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔عراقی سیاست میں صدری تحریک کا اس طرح بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکا اور ایران دونوں کے لیے مسائل کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ الصدر ان دونوں پر عراق کے داخلی امور میں مداخلت کے الزامات عاید کرتے ہیں۔وہ عراق میں موجود امریکا کے باقی ڈھائی ہزار فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کرچکے ہیں اور ایران پر یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ اس کو عراق میں گرفت مضبوط نہیں کرنے دیں گے۔

2017ء میں عراق میں داعش کی شکست کے بعد سے امریکا اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیائیں ایک دوسرے کے خلاف محاذآرا ہیں اور وہ ایک دوسرے ڈرون ، راکٹ اور میزائل حملے کررہے ہیں جبکہ مقتدیٰ الصدر نے اس دوران میں بڑی خاموشی ملکی سیاست میں قدم جمانے کے لیے اپنا کام جاری رکھا ہے۔عراقی حکومت کے بعض عہدے داروں اور شیعہ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ صدریوں نے لبنان کی طاقتورشیعہ ملیشیا حزب اللہ سے بعض سیاسی حربے سیکھے ہیں۔صدری تحریک کے حزب اللہ سے قریبی روابط استوار ہیں اور اس سے اس نے یہ سیکھا ہے کہ صدری ووٹ تقسیم نہیں ہونا چاہیے اور اس ووٹ سے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

صدری تحریک کے اعلیٰ سیاسی نمایندہ ناصر الربیعی اپنی سیاسی کامیابیوں کا یہ خلاصہ بیان کرتے ہیں:’’آج ہر ریاستی ادارے میں صدری اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔یہ سب اللہ کے فضل وکرم سے ممکن ہوا ہے۔‘‘

مقتدیٰ الصدر کے ایک قریبی معاون حازم العراجی نے برطانوی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’صدری تحریک 2003ء کے بعد آج سب سے زیادہ مضبوط ہے۔الصدر عراق میں سب سے طاقتور شخصیت ہیں۔‘‘

مقتدیٰ الصدر کی سب سے زیادہ مضبوطی اور پختگی کی علامت ان کی عوامی مقبولیت ہے۔ان کے والد آیت اللہ محمد صادق الصدر نے عراق کے سابق مطلق العنان سنی صدر صدام حسین کے خلاف مقہور شیعہ اکثریت کی قیادت کی تھی۔انھیں صدام حکومت نے 1999ء میں قتل کرادیا تھا۔ان کے بعد نوجوان مقتدیٰ الصدر نے ان کی تحریک کی قیادت سنبھال لی تھی۔اس وقت ان کی عمر47 سال ہے۔ان کی ایک خاص وجہ شہرت یہ ہےکہ وہ صدام دور میں عراق کے دوسرے شیعہ لیڈروں کی طرح ملک سے باہر ایران اور یورپ نہیں گئے تھے بلکہ عراق ہی میں مقیم رہے تھے۔

2003ء میں ان کے زیرقیادت مہدی آرمی نے امریکی فوج کے قبضے کے خلاف جنگ لڑی تھی۔اس لڑائی میں ان کے وفادار ہزاروں جنگجو شامل تھے۔اس کے بعد انھوں نے امریکا یا ایران کی حمایت سے ملک میں ہونے والے سیاسی جوڑ توڑسے خود کو دوررکھا تھا۔انھوں نے2007ء میں مالکی حکومت سے امریکی فوجیوں کے ملک سے انخلا کا نظام الاوقات دینے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے انکار پر صدری تحریک حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔2008ء میں سابق وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت نے مہدی آرمی کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے سیکڑوں جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

انھوں نے 2014ء میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ان کے معاونین کے نزدیک وہ یہ سمجھتے تھے کہ عراق کی حکمران اشرافیہ کے بدعنوانیوں میں ملوّث ہونے کی وجہ سے ان کی شہرت داغدار ہورہی ہے لیکن 2018ء میں ان کے رویے میں تبدیلی آئی تھیں کیونکہ تب ان کے زیرقیادت صدری بلاک پارلیمانی انتخابات میں سب سے بڑے بلاک کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آیا تھا اور اس نے نئی حکومت کی تشکیل میں اہم کرداراداکیا تھا مگراس کے باوجود مقتدیٰ الصدر کے بعض سیاسی فیصلوں نے سب کو حیران کردیا تھا۔وہ بڑی وزارتوں کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ انھوں نے وزیراعظم کے دفتر میں سیکریٹری جنرل کا عہدہ مانگ لیا تھااورپھراس منصب کی بدولت نے انھوں نے سرکاری اداروں میں اپنے حامیوں کو مرکزی عہدوں پر مقرر کیا ہے۔

سیکریٹری جنرل کے عہدے پر صدری بیوروکریٹ حامدالغیزی کا تقررکیا گیا تھا۔انھوں نے وزارتوں میں عارضی مقرر کیے گئے عہدے داروں کو ہٹا دیا تھا اور ان کی جگہ مستقل تقرر کیے تھے۔ایک سرکاری عہدے دار کے بہ قول صدری تحریک نے ایسے عہدوں پر اپنی توجہ مرکوزکی ہے جہاں اختیاراور پیسہ ہے مگر اس کے باوجود عراق کے سابق وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے صدریوں کے سفارش کردہ تمام عہدے دار مقرر نہیں کیے تھے۔

ایران کی حمایت یافتہ عادل مہدی کی حکومت کے خلاف 2019 میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ مظاہرین نے حکومت پر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے، ریاستی اداروں میں ابتری، مہنگائی پر قابو پانے اورلوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے میں ناکامی کے الزامات عاید کیے تھے۔عراقی سکیورٹی فورسز اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے بغداد اور دوسرے شہروں میں غیرمسلح مظاہرین کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے نتیجے میں بیسیوں مظاہرین ہلاک ہوگئے تھے۔ مقتدیٰ الصدر نے اس احتجاجی تحریک کی حمایت کی تھی اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد نومبر 2019ء میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی اور ان کے زیر قیادت کابینہ نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔

اس کے کئی ماہ کے بعد وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کے زیر قیادت ایک نئی کابینہ تشکیل پائی تھی۔اس میں بھی صدری تحریک نے بعض مزید اہم مناصب اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتم ہاؤس کے مطابق 2018ء کے بعد صدریوں نے قریباً 200 اہم مناصب اور عہدے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس نے اسی انداز میں پیش قدمی جاری رکھی تو عراق کا آیندہ وزیراعظم صدری تحریک ہی سے ہوگا اور یہ امریکا اور ایران دونوں کے لیے کوئی خوش کن پیش رفت نہیں ہوگی کیونکہ مقتدیٰ الصدر دونوں کی عراق میں مداخلت کے مخالف ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں