ٹرمپ 'صدی کی ڈیل' میں کیا اہم اعلانات کرنا چاہتے ہیں: اہم انکشافات

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کل منگل کے روز مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے مجوزہ امن منصوبے 'سنچری ڈیل' کا باقاعدہ اعلان کرنے اور اسے فریقین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اس منصوبے سےآگاہی رکھنے والے سفارت کاروں نے اس حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔

ذرائع نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" اور "الحدث ڈاٹ نیٹ" کو بتایا کہ صدر ٹرمپ سنچری ڈیل کے ذریعے اسرائیل کے لیے فلسطینی علاقوں پر 'ڈی فیکٹو' کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کی سیکیورٹی کے لیے اراضی کے الحاق کی حمایت کریں گے۔

Advertisement

اس کے بدلے میں امریکی انتظامیہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین مذاکرات کا آغاز کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو یہ پیش رفت فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔

'امر واقع' یا ڈی افیکٹو'

امریکا عالمی قوانین اور بین الاقوامی قراردادوں سے قطع نظر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی ریاست کی موجودہ حیثیت اور قبضے کو جوں کا توں تسلیم کرنے کا اعلان کررہا ہے۔

یہ امریکی میکانزم اب تک ہونے والے تمام مذاکرات، ان میں ہونے والی پیش رفت اور امن اقدامات سے متصادم ہے۔ صدی کی ڈیل کے حوالے سے سامنے آنے والی تمام دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی انتظامیہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی کالونیوں کواسرائیل کا حصہ تسلیم کرے گا۔

امر واقع یہ ہے کہ اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں ان علاقوں پر قبضہ کیا اور وہ اس پر نہ صرف قابض ہے بلکہ اس نے یہاں بڑے پیمانے پر کالونیاں تعمیر کر رکھی ہیں۔ اس لیے اب اسرائیل کے لیے ان علاقوں سے پسپائی یا واپسی ممکن نہیں۔ امریکا بھی اس نام نہاد 'حقیقت' کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ہفتوں قبل اس میکانزم کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی تھی جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی آبادیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں مانتا۔ انہوں نے 18 نومبرسنہ 2019 کو کہا تھا کہ امریکی اعلان "زمین پر موجود حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔"

ماضی میں امریکی انتظامیہ کا فلسطین میں یہودی آباد کاری سے متعلق موقف مختلف رہا ہے۔ اسرائیل کے لیے ہرممکن لچک کے باوجود امریکا نے کھل کر ان بستیوں کی حمایت نہیں کی۔

اسرائیل کی سیکیورٹی ضروریات

العربیہ ڈاٹ نیٹ اور الحدث ڈاٹ نیٹ کو دستیاب تمام معلومات ان سفارت کاروں کے ذیعے ملی ہیں جنہوں نے صدی کی ڈیل کا مسودہ تیار کرنے میں یا تو مدد کی ہے یا انہیں نے اسے بہ غور پڑھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنچری ڈیل میں امریکا نے اسرائیل کی سیکیورٹی کی ضروریات پر زور دیا ہے۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کی ضرورت کے پیش نظر صہیونی ریاست کو وادی اردن پر اپنا تسلط قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس طرح پوری اردنی سرحد پر اسرائیل ہی کا سیکیورٹی کنٹرول قائم ہوگا۔

اسرائیل گذشتہ کچھ عرصے سے وادی اردن اور شمالی بحر مردار کےالحاق کے لیے سرگرم ہے اور اس کے لیے لابنگ کر رہا ہے۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کے حریف اپوزیشن لیڈر بینی گینٹز کا اس حوالے سے موقف ایک ہے۔

فلسطینی ریاست

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ فلسطینی ریاست کے قیام اور اسے تسلیم کرنے کے لیے دروازہ کھلا رکھے گی لیکن یہ ریاست فلسطین اور اسرائیلی دونوں فریقوں کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہوسکے گی۔ امریکا کی طرف سے غرب اردن کے 50 فی صد علاقے کو اسرائیل کی سیکیورٹی ضرورت کے تحت اسرائیل میں شامل کیا جائے گا جب کہ باقی پچاس فی صد پر فلسطینیوں کو اپنی خود مختار ریاست قائم کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اور اس کے مذاکرات انتہائی مشکل ہوں گے۔ اگر فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو وہ پہلے عبوری ریاست ہوگی۔ اس کے بعد اسے تسلیم کرنے کا مرحلہ شروع ہوگا۔ اس کے بعد وہ مستقل ریاست بن سکے گی۔ اس دوران فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی کئی مشکل شرائط ماننا ہوں گی جن میں اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا، مشرقی یروشلم پر اسرائیل کی عمل داری اور اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ حل کرنا وغیرہ جیسے مسائل فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں مزاحم ہوں گے۔

مقبول خبریں اہم خبریں