امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات استوار ہیں اور یہ کسی ایک صدر کے دور حکومت تک محدود نہیں ہیں۔ یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان مورگن اورتاگس نے العربیہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ایسے وقت میں امریکا کا دورہ کررہے ہیں جب آیندہ ماہ صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو سعودی عرب کو ایک تزویراتی اتحادی کی حیثیت سے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
ترجمان نے کہا:’’ ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان یہ اتحاد کسی ایک صدر کا مرہونِ منت نہیں رہا ہے بلکہ اس کی تاریخ 75 سال پرانی ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ میں اس کو بالخصوص زیادہ اہمیت حاصل ہوئی ہے کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی شکل میں ایک مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
اورتاگس کا کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب دنیا بھر میں داعش اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار ادا کررہا ہے اور ہماری مدد کررہا ہے۔ہم مالیاتی دہشت گردی کے خلاف مل جل کر کام کررہے ہیں۔جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو خطے میں امریکا ایک طویل عرصے سے موجود ہے لیکن سعودی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباؤ بڑھانے کی مہم میں ایک اہم شراکت دار ہے۔‘‘
ترجمان کی اس گفتگو سے چندے قبل امریکا اور سعودی عرب کے درمیان محکمہ خارجہ ، واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطح کے وفود کے درمیان تزویراتی مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔اس موقع پر وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’’امریکا اور سعودی عرب میں تزویراتی مکالمے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔
انھوں نے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ’’ ہم نے آج کی گفتگو میں نہ صرف سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لیے باہمی رضامندی کا اظہار کیا ہے بلکہ مجموعی شراکت داری کو بڑھانے پر بات چیت کی ہے۔‘‘
انھوں نے انکشاف کیا کہ امریکا الریاض میں اپنے نئے سفارت خانے کی تعمیر کے لیے 26 ایکڑ اراضی خرید کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں سعودی حکام سے بات چیت کررہا ہے۔
دونوں ملکوں کے وفود نے اس تزویراتی مکالمے میں ایران کے تخریبی کردار سمیت علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر بات چیت کی ہے۔مائیک پومپیو نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران سعودی عرب کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کررہا ہے اور عالمی تجارت میں رخنے ڈال رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ آج ہم نے ایران کی تخریبی سرگرمیوں اور اس سے علاقائی سلامتی اور خوش حالی کو درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے باہمی عزم کا اعادہ کیا ہے۔‘‘