ایران کی سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین ابراہیم رئیسی نے اپنے معاون محمد جواد لاریجانی کو ملازمت سے برطرف کرنے کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک قریبی شخص علی باقری کنی کو ان کی جگہ اپنا معاون مقرر کیا ہے۔
علی لاری جانی 15 سال تک سپریم عدالتی کونسل کے معاون رہے جب کہ ان کے بڑے بھائی صادق لاری جانی کو سپریم لیڈر نے جوڈیشل کونسل کی قیادت سے ہٹا کر گذشتہ برس مارچ میں مصالحتی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ صادق لاریجانی 10 سال تک عدلیہ کے سربراہ رہے ہیں۔
مبصرین نے علی باقری کی تقرری کو ایرانی سپریم لیڈر کے نیٹ ورک اور اس کے قابل اعتماد دفتر کے عملے کی توسیع کی ایک نئی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے تمام اعلیٰ عہدوں پر سپریم لیڈر کے سخت گیر مقربین کو تعینات کیا جا رہا ہے۔
عدلیہ میں معاون کی حیثیت کے علاوہ باقری کنی کو ایرانی عدلیہ میں نام نہاد "ہیومن رائٹس کمیٹی" کا نیا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ عہدہ علی لاریجانی کے ہاتھ میں تھا۔ ایران میں یہ نام نہاد انسانی حقوق کمیشن ملک میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی پردہ پوشی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ فی الحقیقت یہ کمیشن بین الاقوامی تنظیموں اور فورمز میں ملک میں انسانی حقوق کی کارکردگی کا دفاع کرنے کے لیے ذمہ دار ایک سفارتی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک 54 سالہ سابق سفارت کارعلی باقری کنی محمود احمدی نژاد کے دور صدارت میں جوہری مذاکراتی ٹیم کے رکن اور سنہ 2013ء میں سعید جلیلی کی انتخابی مہم کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
انہوں نے یورپی امور کے نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی کچھ عرصہ خدمات انجام دیں۔ ایرانی سپریم لیڈر انہیں کم عمر "متقی نوجوان" اور "انقلابی منتظم" قرار دیتے ہیں۔ علی باقری کنی کا تعلق با اثر علماء کے ایک خاندان سے ہے۔ اس کے بھائی مصباح الہدیٰ سپریم لیڈر کے داماد ہیں۔
علی باقری کے والد محمد باقر باقری کنی ایرانی گارڈین کونسل کے سابق رکن رہ چکے ہیں جب کہ ان کے چچا آیت اللہ محمد رضا مھدی اس کونسل کے چیرمین کے عہدے پربھی تعینات رہے ہیں۔