سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کا کہنا ہے کہ مملکت یمن میں مستقل اور جامع امن دیکھنا چاہتی ہے۔
منگل کے روز اپنی ٹویٹ شہزادہ خالد نے کہا کہ "ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ دنیا بھر میں امن و سلامتی اپنے پر پھیلائے ، ہم یمن میں امن کے علم برداروں اور اپنے برادران کے ساتھ اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ ریاض سمجھوتے پر عمل درامد کے ذریعے جامع اور دائمی امن تک پہنچا جائے .. اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مل کر کوششوں کو مربوط بنایا جا رہا ہے تا کہ بحران کا خاتمہ کیا جا سکے اور یمن ،،، خلیج اور عرب دنیا کے دھارے میں واپس لوٹ سکے"۔
في #اليوم_العالمي_للسلام، نتطلع الى أن ينعم العالم بالسلام في أرجاءه،ونسعى مع دعاة السلام وأشقائنا في اليمن للوصول الى سلامٍ شاملٍ ودائم من خلال تنفيذ اتفاق الرياض وتكامل الجهود مع المبعوث الاممي لانجاح مقترحه (الاعلان المشترك) لانهاء الازمة وعودة اليمن الى محيطه الخليجي والعربي.
— Khalid bin Salman خالد بن سلمان (@kbsalsaud) September 22, 2020
یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں سعودی عرب بے یمنی حکومت اور عبوری کونسل کے درمیان ریاض معاہدے پر عمل درامد تیز کرنے کے واسطے ایک میکانزم پیش کیا تھا۔ اس میکانزم میں عمل درامد کے نکات پر زور دیا گیا تھا۔ ان میں آئینی حکومت اور جنوبی عبوری کونسل کے درمیان فائر بندی اور جارحیت کا سلسلہ موقوف رہنا شامل تھا۔ اس فائر بندی کا اطلاق 22 جون 2020ء کو ہوا تھا۔
دوسری جانب گذشتہ جمعے (18 ستمبر) کو سوئٹزرلینڈ میں حوثیوں اور آئینی حکومت کے نمائندوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے ھوالے سے بات چیت شروع ہوئی۔ یہ بات یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھس کے دفتر کے ایک اعلان میں بتائی گئی۔
اقوام متحدہ کے ترجمان ریول بلین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ "فریقین کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا مقصد قیدیوں کے تبادلے سے متعلق دونوں اطراف کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل درامد کرانا ہے۔ یہ وعدے دسمبر 2018ء میں اسٹاک ہوم (سویڈن) اور فروری 2020ء میں عَمّان (اردن) میں طے پانے والے معاہدوں میں سامنے آئے تھے۔ قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے میں 1420 اسیر شامل ہیں۔