ایران پر پابندیوں کے نفاذ میں موجودہ امریکی انتظامیہ ٹرمپ کی راہ پر چل رہی ہے: ظریف
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیوں کے ورق کواستعمال کرتے ہوئے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
ظریف نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر متعدد ٹویٹس میں لکھا کہ یہ افسوسناک اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اب ایران سے اس جوہری معاہدے کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ نے دستبرداری اختیار کی تھی۔
"It's sadly ironic that the State Dept is now calling on Iran to abide by the very deal the Trump administration abandoned."@POTUS, 2019
— Javad Zarif (@JZarif) March 30, 2021
Your admin follows Trump's footsteps while trying to use his unlawful sanctions as "leverage".
Nasty habits die hard. Time to kick this one. pic.twitter.com/PIhN1YwT3e
انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور ایران پر پابندیوں تہران پر دباو کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بری عادات آسانی سے نہیں بدلتیں۔ اب اس عادت کو ترک کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پولیٹیکو کے مطابق بائیڈن ٹیم ایرانیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اس ہفتے کےایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے ایک نئی تجویز پیش کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

ایک ذرائع نے ویب سائٹ کو بتایا کہ اس تجویز میں ایران سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنی کچھ جوہری سرگرمیاں بند کردے جن میں اعلی درجے کی سنٹری فیوجز پر کام کرنا اور یورینیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنا ہے۔ تاہم ایران امریکا کی ایسی کسی تجویز کو قبول کرے اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس سال کے شروع میں تہران نے ایسی ہی ایک امریکی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ ایران اس طرح کی تجاویز کو ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔