الکرامہ کراسنگ میں توسیع، کیا فلسطینیوں کی مشکلات کا مداوا ہو سکےگا؟
فلسطین کے مغربی کنارے اور اردن کے درمیان الکرامہ پل بارڈر کراسنگ کے قریب بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو ہٹا کر اسرائیل نے کراسنگ کو وسیع کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ کراسنگ فلسطینیوں کے لیے اردن اور وہاں سے دوسرے ممالک جانے کا واحد راستہ ہے۔
یہ بارودی سرنگیں اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کے بعد بچھائی گئی تھیں۔ اسرائیل نے ان بارودی سرنگوں کو دریائے اردن کے مشرقی اور مغربی کنارے کے درمیان سرحدوں کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔
دو پل دو کناروں کو جوڑتے ہیں ایک کنارا اردن میں بیسان شہر کے شمال میں اور دوسرا جیریکو شہر کے مشرق میں واقع ہے۔یہ پل فلسطینیوں کے بیرون ملک سفراور ان کے سامان کی درآمد اور برآمد کے لیے وقف ہے اور اردن کے راستے بیرونی دنیا تک رسائی کا واحد راستہ ہے۔
کراسنگ پر اسرائیلی کنٹرول
الکرامہ کراسنگ جسے اردن میں "شاہ حسین برج" اور اسرائیل میں "النبی برج" کہا جاتا ہے، 1885 میں عثمانی حکومت کے دورمیں قائم کیا گیا۔ جنرل ایڈمنڈ النبی کی قیادت میں برطانوی فوج 1917 میں اسی پل سے فلسطین میں داخل ہوئی تھی۔
یہ پل 2001 تک لکڑی کا بنا رہا جب جاپان نے بسوں، گاڑیوں اور ٹرکوں کے لیے چار لین کے ساتھ مضبوط کنکریٹ سے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔
اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو کراسنگ پر علامتی موجودگی کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسرائیل نے سنہ 2000 میں انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی فلسطینی ملازمین کو وہاں سے نکال دیا۔ وہاں اسرائیلی پل سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک فلسطینی پاسپورٹ اور کسٹم پوائنٹ موجود ہے۔ یہ دفتر جیریکو شہر کے اندر ریسٹ ہاؤس کے نام سے مشہور عمار میں ہے۔
اسرائیل کراسنگ کو کنٹرول کرتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ آیا غرب اردن سے کون بیرون ملک آ اور جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سامان کی آمدو رترسیل کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔
تجارت اور نقل و حرکت میں رکاوٹ
فلسطینی شہری کراسنگ پر شدید رش کی شکایت کرتے ہیں خاص طور پر گرمیوں میں کراسنگ کی جگہ کی تنگی اسرائیلی اقدامات اور مسافروں اور سامان رش کی بنیادی وجہ ہے۔
اردن کے سیکڑوں ٹرک روزانہ بڑی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں جو مغربی کنارے میں داخل ہونے سے قبل اپنا سامان اتارتے ہیں۔وہاں سے سامان اسرائیلی ٹرکوں پر لادا جاتا ہے
اس سے فلسطینی اور اسرائیلی فریقوں کے درمیان درآمد و برآمد کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی ملازمین کا کام روزانہ سہ پہر تین بجے ختم کردیتے ہیں۔
کرامہ پل کراسنگ پراسرائیلی فوجی اہلکار نبیل طافش نے کہاکہ پل کی توسیع کا منصوبہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کراسنگ کے کام کو تیار کرنا ہے۔
دوسری طرف فلسطینی بارڈرز اینڈ کراسنگ کی جنرل ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر جنرل نظمی مھنا نے کہا کہ یہ کرامہ پل پر سامان اور مسافروں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر قائم کرنے کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد مسافر بسوں سے دور ٹرکوں کے لیے پارکنگ کی جگہوں اور سڑکوں کو محفوظ بنانا ہے۔
مھنا نے "انڈی پنڈینٹ عربیہ" سےگفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطینی کراسنگ انتظامیہ دو سال سے "ریسٹ ہاؤس" میں دفاتر اور دیگر تنصیبات تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہے جس میں جیریکو شہر میں فلسطینی پاسپورٹ اور کسٹمز شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے فلسطینی صدر محمود عباس نے جیریکو اور وادی اردن کے داخلی دروازے کے منصوبے کا افتتاح کیا جس میں جیریکو شہر کو روٹ 90 سے ملانے والی سڑک کی توسیع شامل ہے۔اس کا مقصد جیریکو اور وادی اردن سے آنے اور جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانا ہے۔
لیکن اس منصوبے کو شاہراہ 90 اور کرامہ پل کے درمیان سڑک کو چوڑا کرکے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
فلسطینی وزیر اقتصادیات خالد العوسیلی کا خیال ہے کہ اردن کے ساتھ کرامہ کراسنگ کا بنیادی ڈھانچہ اور پیچیدگیاں، اسرائیلی اقدامات فلسطینیوں کی درآمد اور برآمد کی ضروریات کو پورا کرنے میں رکاوٹ ہیں۔
العوسیلی نے "دی انڈیپنڈنٹ عربیہ" کے ساتھ ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو سامان سے لدے ٹرک اتارنے اور پھر اسرائیلی ٹرکوں پر دوبارہ لوڈ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مہنگا کام ہے اور زیادہ وقت لگتا ہے اور اس سے فلسطینیوں کو نقصان ہوتا ہے۔