سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمعہ 19 مئی کو جدہ میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے افتتاحی کلمات میں عرب رہنماؤں، یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی اور شامی صدر بشار الاسد کا خیرمقدم کیا۔روس کے صارف شام کو عرب لیگ کی صفوں میں دوبارہ شامل کیا گیا تو صدرولادی میرپوتین کے مخالف کو عرب دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے پلیٹ فارم دیا گیا تھا۔ نئے مشرقِ اوسط میں خوش آمدید۔
جدہ میں ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں عرب لیگ میں شام کی واپسی کو سعودی قیادت کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کی بحالی کی کوشش کے طور پردیکھا جارہا ہے اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ وہ توڑپھوڑ کا شکار شام کے رہ نما ہیں۔وہ اپنے پانچ لاکھ ہم وطنوں کے قتل عام کے ذمے دار ہیں اور انھوں نے روس کی فضائی نگرانی میں ایک کروڑ10 لاکھ شامیوں کی نقل مکانی اور برسرزمین ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈروں اور ملیشیاؤں کی رہ نمائی اور حکمتِ عملی کی کمان کی نگرانی کی تھی۔
مگریہ ناقدین خطے میں جنم لینے والے نئے نظام کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس میں امریکی سلامتی کی چھتری کی عدم موجودگی ہے جسے دوستوں اور دشمنوں نے گذشتہ نصف صدی سے فطرت کی حقیقت کے طور پر قبول کیا تھا۔امریکی رہ نما اور ڈیووس کے دانش مند لوگ تزویراتی وسائل کے طور پر فوسل ایندھن کے غائب ہونے پر شرط لگانے کے لیے صحیح ہیں یا غلط، خطے کو یہ واضح پیغام ملا ہے:’’ایلوس نے عمارت چھوڑدی ہے‘‘ چونکہ ممالک کو تیل کے ٹینکروں اور جنگی جہازوں کی طرح آسانی سے منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے، لہِٰذا علاقائی رہنماؤں کے پاس اس کے سواکوئی چارہ نہیں بچا ہے کہ وہ ایک طریق کار تیار کرنے کی کوشش کریں۔خواہ اس کا مطلب جنگی مجرموں کے ساتھ مل کر رات کا کھانا ہی کیوں نہ ہو۔
طاقت کے وحشیانہ استعمال اور اپنے سرپرستوں روس اور چین کی غیرمتزلزل حمایت کے ذریعے بشارالاسد اپنے ہی عوام کے خلاف اپنی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور روس ایران محور کو تزویراتی فتح دلائی ہے جس سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار شام پر غیر معینہ مدت تک حکومت کر سکیں گے۔ شام کو میز پر جگہ دینا اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے جو شامی آمر نے فولاد اور خون سے وضع کی ہے۔ یہ ان کے سرپرستوں کی بھی فتح ہے جنھوں نے ان کے قاتلانہ طرز عمل میں سہولت کار کاکردار اداکیا ہے۔ یہ توقع کرنا معقول ہے کہ مستقبل میں آنے والے عرب طاقتور افراد ان بدصورت اسباق پر گہری توجہ دے رہے ہیں۔
صدر ولودی میر زیلنسکی بھی جدہ میں موجود ہیں۔ عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں روس کے ایک کٹڑ مخالف اور جمہوریت کی علامت کی موجودگی ایک نئے مشرق اوسط کے دوسرے پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ ماضی میں امریکی اتحادیوں کی قیادت میں اقدامات امریکاکی سلامتی کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر مرکوز تھے، لیکن عرب لیگ کا یہ سربراہ اجلاس ایک ایسے خطے کو اکٹھا کرتا ہے جسے اب سپر پاور سرپرستوں کی نگرانی میں اچھی طرح سے نشان زد کیمپوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس نئے منظرنامہ کی سب سے قابل ذکر خصوصیت اثرو رسوخ، طاقت اور وسائل کے لیے مقابلہ ہے جو تمام کھلاڑیوں کے لیے کھلا ہے۔
اگرچہ کھلی مسابقت بہ ذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے، لیکن علاقائی آزادی کا امکان امریکی مفادات اور علاقائی استحکام دونوں کے لیے کافی خطرات کا حامل ہے۔ واضح اتحاد اور قواعد کے بغیر،صرف مسلح تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔مزید برآں امریکا کے پاس خطے میں اپنے باقی ماندہ، کافی بڑے مفادات کو سنبھالنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کا فقدان ہے۔ یہاں تک کہ اگر امریکا کاطویل مدتی ہدف یا مقصد صرف خطے کو امریکی فوجی اور معاشی منصوبہ سازوں کے نقشوں سے مٹادینا ہے، تو بے ترتیب اور ٹکڑوں میں انخلاء افراتفری میں اضافے کی ایک ترکیب ہے جو امریکی مفادات پر منفی اثرات مرتب کرے گی جبکہ اس سے پہنچنے والے نقصان کے اثرات صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی ہوں گے۔
چین امریکا کی طرف سے چھوڑے گئے طاقت کے خلا کو پُرکرنے اورفائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔اس نے حال ہی میں الریاض اور تہران کے درمیان بیجنگ میں ایک معاہدے کی ثالثی کی ہے۔ ان دونوں دارالحکومتوں کے درمیان دشمنی کی بنیاد زیادہ تر ایران کے اس تصور پر ہے کہ سعودی عرب مشرق اوسط میں امریکی نظام کا ایجنٹ ہے لیکن یہ آرڈر موجود ہی نہیں تو پھر دشمنی کیوں ہونی چاہیے؟ اگرچہ ایرانیں نے ماضی میں کئی بار معاہدوں سے انحراف کیا ہے ، لیکن چین کی ضمانت نے اب کہ سعودیوں کے لیے اعتماد کی ایک نئی سطح متعارف کرائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینیوں کے پاس واضح طور پر امریکی صلاحیت کا فقدان ہے کہ وہ طاقت کے ساتھ اپنے وعدوں کی معاونت کرسکیں۔
سعودی عرب کے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مملکت اس ملک میں ہونے والے جرائم کو معاف کردے، اس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ وہ اب تہران یا بیجنگ کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ رہا ہے۔اس کے بجائے سعودی عرب کو اس بات کا احساس ہے کہ خطے میں امریکا کے حمایت یافتہ سکیورٹی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں علاقائی کرداروں کی، چاہے وہ کوئی بھی ہوں، تزویراتی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے۔
خطے میں امریکا کےاتحادی اس سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کے بجائے وہ اپنے قومی مفادات کی پیروی کر رہے ہیں۔ مشرقِ اوسط کی نئی حقیقتوں کی اس سے بہتر کوئی عکاسی نہیں ہوسکتی کہ سعودی عرب نے جدہ میں ایک ہی کمرے میں ولودی میر زیلنسکی اور بشارالاسد دونوں کی میزبانی کی ہے۔ یہ خطہ اب سپرپاور کی ضمانت اور رہ نمائی کے بغیر مواقع اور خطرات دونوں کے ساتھ اپنے مسائل اور دشمنیوں کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے۔خطے میں صورت حال اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتی۔
..................
محمدالیحییٰ ہارورڈ کینیڈی اسکول کے بالفر برائے سائنس اور بین الاقوامی تعلقات میں سینیرفیلو ہیں۔ وہ العربیہ انگریزی کے سابق ایڈیٹرانچیف ہیں۔