پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی: وزیر خارجہ

پاکستان خطے کے کسی تنازع میں حصہ دار نہیں بنے گا،مشرق وسطیٰ ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوگی اور نہ ہی وہ خطے کے کسی تنازع میں حصے دار بنے گا۔

یہ بات پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سوموار کے روز پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہی ہے۔انھوں نے ایوان کو امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کی تفصیل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ 27 دسمبر کو عراق میں ایک فوجی اڈے پر راکٹ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر مارا گیا تھا۔ امریکا نے اس کے ردعمل میں 29 دسمبر کو عراق اور شام میں کارروائی کی تھی۔اس میں عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے 25 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

Advertisement

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی حملے کے ردعمل میں 31 دسمبر کو بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے سخت احتجاج کیا گیا تھا مگر خوش قسمتی سے امریکی سفارت خانے کو بروقت خالی کروالیا گیا تھا۔اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔انھوں نے کہا کہ امریکا نے یکم جنوری کو اس احتجاج کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا تھا اور( سفارت خانے پر حملے کا) ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ 3 جنوری کو بغداد میں ایک ڈرون حملے میں قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ان کےساتھ عراقی ملیشیاؤں پر مشتمل الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابوالمہدی المہندس اور دیگر 9 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین اس واقعے کو نہ صرف تشویش ناک قرار دے رہے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اہمیت کے لحاظ سے ان کی نظر میں اس واقعے کے اثرات 2011ء میں امریکا کے فوجی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور 2019ء میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت سے بھی زیادہ گہرے، سنگین اور تشویش ناک ہوسکتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران اور عراق میں احتجاجی کیفیت نے جنم لیا۔ لوگ سڑکوں پر آگئے اور غم و غصے کا اظہار کیا جو آج بھی جاری ہے۔خطے کی تازہ صورت حال کو بھانپتے ہوئے 3 جنوری کو حکومتِ پاکستان نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا تھا۔وہ سمجھتی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کے اثرات کو ہمیں بحیثیت قوم سمجھنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ کے منفی اثرات افغانستان پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں اور اس سے وہاں امن عمل متاثر ہوسکتا ہے۔اس معاملے کی آڑ میں یمن کے حوثی جنگجو سعودی عرب پر مزید حملے کرسکتے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اسرائیل پر راکٹ حملے کرسکتی ہے۔

انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اہم آبی گذرگاہ آبنائے ہرمز کی بندش ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں تیل کی ترسیل متاثر ہوگی۔اس کے اثرات عالمی معیشت پر مرتب ہوں گے۔انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کا جن دوبارہ بوتل سے باہر آسکتا ہے۔اس واقعے سے اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)کی تقسیم کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کی اس صورت حال کی آڑ میں بھارت کی جانب سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے اور جعلی حملہ کرنے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کسی یک طرفہ عمل کی تائید نہیں کرتا۔اس کے نزدیک طاقت کا استعمال ٹھیک نہیں۔اس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں اور معاملات کبھی حل نہیں ہوتے۔ انھوں نے تمام فریقوں پر ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ملکوں کی علاقائی خودمختاری اور سرحدوں کے احترام کے اصول کی حمایت کرتا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں