میں اگرچہ مترددانداز ہی میں سہی،عوامی جمہوریہ چین کواس معاہدے پرمبارک باد پیش کرنا چاہوں گا جس کی ثالثی اس نے گذشتہ ہفتے کی تھی اورجس کے نتیجے میں مملکت سعودی عرب اوراسلامی جمہوریہ ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔ یہ ایک اہم کامیابی ہے، خواہ وہ امریکا اوراسرائیل کے لیے ممکنہ طور پر پریشان کن ہی کیوں نہ ہو۔یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس میں امریکا نے کوئی کردارادا نہیں کیا۔اس معاملہ میں ہم صرف اپنے آپ کوقصوروار ٹھہراسکتے ہیں۔
یہ پیشین گوئی کرناقبل ازوقت ہوگاکہ یہ معاہدہ کس طرح عمل میں آئے گا۔اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب اورمشرقِ اوسط کے دیگرممالک کو الگ تھلگ کرنے میں کافی وقت گزارہ ہے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے، لیکن اس دوران میں چین نے مشرق اوسط میں مضبوط تعلقات قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔چین نے دنیا کو اپنی وہ طاقت دکھائی ہے،جو وہ ہے۔امریکا کے لیے اس کے برعکس دکھاوا کرنا نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔
اس کردارکے لیے چین کو کون مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے؟ چین اورامریکا کے درمیان کشیدگی ہرگزرتے مہینے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔امریکااورسعودی عرب (اور مشرقِ اوسط میں ہمارے کچھ دیگر اتحادیوں) کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اورکانگریس میں کچھ لوگوں نے واضح اشارے دیے ہیں کہ سعودی عرب کواُن (امریکیوں) کی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہیے،ورنہ۔۔۔۔ یہ ایک ایسے اہم اتحادی کے ساتھ اس انداز میں برتاؤ کرنے کا طریقہ نہیں ہے، جو خطے کی سلامتی کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔اگرچہ امریکا اورسعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے اہم ہیں اورانھیں اہم اور مضبوط رہنا چاہیے لیکن بائیڈن انتظامیہ مشرقِ اوسط میں اپنا راستہ کھوٹا کرچکی ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ چین کے انتہائی اہم اقتصادی تعلقات کونظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ چین سعودی تیل کے سب سے اہم خریداروں میں سے ایک ہے۔یقیناً چین کو سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے اس تیل کی محفوظ ترسیل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔چین ایران میں بھی اہم اثرورسوخ کا حامل ہے اور ایران کی معیشت میں اہم کردارادا کرتا ہے۔جب بائیڈن انتظامیہ اورکانگریس تیل کی قیمتوں کے بارے میں شکایات کرنے میں مصروف تھے،تب چین سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کومزید مستحکم کرنے میں مصروف تھا۔ایران یہ جانتا تھا، سعودی عرب یہ جانتا تھا اور چین یہ جانتا تھا۔ کیا بائیڈن انتظامیہ کو یہ سب معلوم تھا؟
سعودی عرب کے نقطہ نظرسے،ان پریہ حکمتِ عملی اپنانے کا الزام کون لگا سکتا ہے؟ سعودی قیادت کا سب سے اہم کام اپنے عوام اوراپنے اثاثوں کی حفاظت کرنا ہے۔ سعودی قیادت نے مملکت کے لیے ایک نیا راستہ تیارکیا ہے۔نہ صرف اس کا دائرہ کارحیران کن ہے بلکہ اسے زمینی سطح پربھی نافذ کیاجارہا ہے۔ ترقی تیزاورحقیقی ہے۔سعودی عرب کے پاس ایک ایسے امریکا کاانتظارکرنے کا انتخاب تھاجوایران کے بارے میں اپنے مؤقف کے بارے میں مبہم رہا اورجو خطے سے دور ہونے لگا تھا اورسعودی عرب اور دیگر ممالک کو ایران کی جانب سے دھمکیوں کے پیش نظر محض زبانی جمع خرچ کررہا تھا۔کیا سعودی عرب اور خطےکے دیگر ممالک امریکاپرایک قابل اعتماد اتحادی کے طور پر بھروساجاری رکھ سکتے ہیں؟انھیں یقین نہیں ہے۔وہ غلط نہیں ہیں۔
ابراہیم معاہدے اوراسرائیل کے لیے اس کاکیامطلب ہے؟یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا اورفی الحال ہمیں ان سنگین پیشین گوئیوں سے دوررہنا چاہیے کہ ابراہیم معاہدے ختم ہو چکے ہیں یا سعودی عرب کبھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرنہیں لائے گا۔ ابراہیم معاہدے اوراسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے ممکنہ تعلقات اس وقت کا موضوع نہیں ہیں۔ہم متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھ سکتے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ کس طرح ایک ملک اسرائیل کے ساتھ مضبوط، بامعنی اور بڑھتے ہوئے تعلقات قائم کرسکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی رکھ سکتا ہے۔اماراتی قیادت دونوں تعلقات کے انتظام میں ہوشیار، محتاط اورحقیقت پسندانہ رہی ہے۔آج ہم سعودی عرب اورایران کے درمیان تعلقات کا جو نقطہ نظردیکھ رہے ہیں،وہ کوئی نیا نقطہ نظرنہیں ہے۔ یہ وہ چیزہے جس کی وکالت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کچھ عرصے سے کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے پاس چین (بدقسمتی سے امریکا نہیں) ہے جواس نقطہ نظر کو زندہ کرنے کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے۔سعودی عرب کے نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو یہ حقیقت پسندانہ سفارت کاری، مملکت اور اس کے منصوبوں کی حفاظت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ایران سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے اعلان سے صرف 24 گھنٹے قبل سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی درخواست کی خبر سامنے آئی تھی۔کیا یہ درخواستیں حقیقت پسندانہ ہیں یا قابل حصول ہیں،یہ دیکھناباقی ہے۔ سعودی ایران معاہدہ فی الحال ابراہیم معاہدے یا اسرائیل کے بارے میں نہیں ہے۔یہ سعودی عرب کی ضروریات اور مقاصد کے ساتھ ساتھ ایران اور چین کی ضروریات اور اہداف کے بارے میں ہے۔ اسرائیل کی توجہ ایران کی جانب سے براہِ راست اور اس کی دہشت گردآلہ کارتنظیم کے ذریعے جاری خطرے پرہونی چاہیے۔سعودی عرب ایران کی جانب سے اسے لاحق ممکنہ خطرات پربھی گہری توجہ دے گا۔وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔مملکت کا یہ معاہدہ خواہشات پرمبنی نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کاکہناہے کہ اس کا مقصد بائیڈن انتظامیہ کے مُنھ پرطمانچہ تھا۔اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے یہ یقینی طورپراچھا نہیں ہے کہ امریکا کا روایتی کردارچین نے ادا کیا، لیکن یہ بائیڈن انتظامیہ کے مُنھ پر براہ راست طمانچہ نہیں ہے،بھلے ہی انتظامیہ حیران رہ جائے۔ لیکن اگربائیڈن انتظامیہ نے مشرقِ اوسط پر اپنی پوری توجہ دوبارہ مرکوز نہیں کی تواسے مزید ناخوشگوارحیرتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں اور یہ امریکاکے مفادات کے لیے مددگارنہیں ہوسکتی ہیں۔ کسی بھی طرح سے، ہم چین کو مشرقِ اوسط میں ایک بڑا اور زیادہ اہم کردارادا کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔چین کو مشرق اوسط میں اہم مواقع نظرآتے ہیں اور یہ درست ہے۔ چین کو سعودی عرب اور مشرق اوسط کے باقی حصوں کا احترام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس نے سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت میں کمی کی دھمکی نہیں دی۔وہ سعودی عرب سے غیرحقیقی مطالبات کرتا اور نہ ہی اسے غیراہم شراکت دار سمجھتا ہے۔اب یہ بائیڈن انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے یا نہیں تاکہ مشرقِ اوسط میں چین کی شمولیت امریکا اورخطے میں اس کےاتحادیوں کے لیے مثبت ثابت ہو۔
بائیڈن انتظامیہ کو ایک حقیقت پسندانہ سفارت کاری کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ہم جو کچھ کرسکتے ہیں، اسے احسن اورٹھیک انداز میں کریں، دوستوں، اتحادیوں، حریفوں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کریں جہاں ہم کر سکتے ہیں،اور ہر موقع، خطرے اور امکان کو دیکھتے ہوئے آنکھیں کھول کرایسا کریں۔امریکا اور مشرقِ اوسط کے ہمارے اتحادی بھی اس سے کم کے مستحق نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسن ڈی گرین بلاٹ ٹرمپ انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے مشرق اوسط میں ایلچی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ مشہور کتاب ’’ابراہیم کے راستے پر‘‘کے مصنف ہیں۔