ہم سب شکاری ہیں!
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو تناسب و حکمت اور ربط و ہم آہنگی کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ ہر شخص دنیوی آسائشوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا حق دار ہے اور ہر کسی کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کے وسیع تر تناظر میں اپنے فرائض و واجبات سے عہدہ برآ ہو۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حقوق کے اعتبار سے ہر کوئی برابر ہے یا لوگوں کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جو رتبہ والد کا ہے وہ بیٹے کا نہیں اور جو حقوق بیوی کے ہیں، ہمسایہ ان کا استحقاق نہیں رکھتا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیادیں درجہ بندی پر استوار ہیں۔ یہاں ہر کسی کا مقام واضح، کردار متعیّن اور ضروریات گوناگوں ہیں۔ عدل و انصاف یہ نہیں کہ ہر شخص کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے یا لوگوں کو ہر معاملے میں ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے بلکہ عدل و انصاف یہ ہے کہ تمام امور و معاملات میں افراد معاشرہ کی مختلف احتیاجات اور کیفیتوں کو مدنظر رکھا جائے اور ہر شخص کو اس کے ذاتی حالات اور سماجی مرتبے کے مطابق وہ چیز فراہم کی جائے جس کا وہ مستحق ہے۔
ایسا معاشرہ قابل رشک ہے جہاں ناداروں کی دادرسی ہو اور بے کسوں کو ان کا حق ملے۔ اس کے برعکس جہاں غریبوں کو ان کی لاتعداد ضرورتوں کے باوجود امیروں کے ساتھ ایک ہی ترازو میں تولا جائے، لوگ قارون کی طرح دولت کے رسیا ہوں اور مصیب زدہ لوگوں کے فقر و فاقہ پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جائے تو ایسا نظام بلا ریب ملامت زدہ اور اس میں موجود مفاد پرست عناصر بے حس و بے مروت ہیں۔
جب پاکستان میں آٹے اور چینی وغیرہ کی بہتات ہوتی ہے اور ارزانی کی وجہ سے غریب غرباء انھیں بآسانی خرید کر سکتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہے لوگ کیا کرتے ہیں؟ منافع خور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے ان چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں۔چناں چہ قیمتیں بڑھتی ہیں اور یہ چیزیں مفلس و متوسط لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر نکل جاتی ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کے حالیہ بحران کو دیکھیں۔ حکومت نے قیمتیں کم کیں تو تیل کمپنیوں کے طاقتور کارٹلزنے مقررہ قیمت پر پٹرولیم مصنوعات کی فروخت بند کر دی۔ لوگوں کے معمولات متاثر ہوتے ہیں تو ہوں، عوام الناس کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہو، غریبوں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے تو ہو، ان مافیاز کو کوئی احساس، لحاظ یا مروت نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا صرف منظم گروہوں ہی کی واردات نہیں۔ اس گنگا میں بدقسمتی سے جس کا بھی بس چلتا ہے، وہ نہانے سے نہیں کتراتا۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے آکسیجن کی مانگ زیادہ ہوئی تو بیچنے والوں نے سلنڈر کے داموں کو کئی گنا مہنگا کر دیا۔ جو دوائیں وائرس کے علاج معالجے کے لیے کارگر ثابت ہو رہی تھیں، مفاد پرستوں نے انھیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹروں نے اپیل کی کہ وائرس سے صحت یاب ہونے والے لوگ اپنا پلازما عطیہ کریں تاکہ دیگر متاثرین کا بہتر انداز میں علاج کیا جا سکے، تندرست ہونے والے’’سرفروشوں‘‘نے اپنے پلازما کی بولی بڑھا دی۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ اس حرص و ہوس اور خود غرضی کا مظاہرہ ہم صرف پاکستان ہی میں کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہ بات درست نہیں۔ میں برطانیہ میں کئی برسوں سے مقیم ہوں۔ یہاں ہر سال مارکیٹوں میں رمضان المبارک کے دوران میں مسلمانوں کی سہولت کے لیے اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دی جاتی ہے لیکن جو سپر سٹورز پاکستانیوں کے زیرِملکیت ہیں،ان میں چیزوں کی قیمتیں جوں کی توں رہتی ہیں یا انھیں بڑھا دیا جاتا ہے۔
آپ نے کبھی سوچا ہے ہم اتنے مطلب پرست کیوں ہیں؟ ہم جائز و ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرنے کی تاک میں کیوں رہتے ہیں؟ ہم اپنے آرام و سکون کی خاطر دوسروں کے حقوق کیوں پامال کرتے ہیں؟ فرض کریں آپ کے گھر میں مال و زر کی ریل پیل ہے۔ دیواروں پر یاقوت آویزاں اور چھتوں پر طلائی نقش و نگار ہیں۔ آپ کا لباس بیش بہا اور عطر وعنبر افشاں ہے۔ کیا میں مبارک باد دوں کہ اب آپ اپنی دولت کے بل بوتے پر ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ یا اب کوئی شے آپ کو گزند نہیں پہنچا سکے گی؟ یا آپ کے خزینوں نے اللہ سبحانهُ و تعالىٰ کو راضی کر لیا ہے اور اب آپ کا جنت میں داخلہ یقینی ہے؟
سلطان صلاح الدین ایوبی کی قلمرو میں مصر، شام، یمن، حجاز، عراق، اردن، لبنان، لیبیا، فلسطین، سوڈان اور ترکی شامل تھے۔ اس کے باوجود درویش صفت سلطان دنیا سے رخصت ہوا تو ترکے میں محض ایک دینار اور 47 درہم (لگ بھگ موجودہ 56,000 پاکستانی روپے) چھوڑے۔
آپ کسی ذخیرہ اندوز سے پوچھیں کہ لوگوں کا جینا دوبھر کیوں کرتے ہو۔ وہ کہے گا:’’اب یہی دستور ہے۔‘‘اپنے خون کا بھاؤ کرنے والے سے سوال کریں:’’کیا یہ انسانیت ہے؟‘‘ وہ حالات کی تنگی اور زمانے کی سختی کا گلہ کرے گا۔ اہلِ علم سے ادب کے ساتھ استفسار کریں کہ منبر و محراب کی تعمیر کے لیے حرام یا مشتبہ مال قبول کرنا کیسے جائز ہے؟ وہ انتہائی غور و فکر کے بعد جواب دیں گے:’’چندے کو رد کرنا شریعت کے اصولوں سے متصادم ہے۔‘‘
میں آپ کو ایک زاہد کا قصہ سناتا ہوں جو ظاہر میں عبادت گزار و فاقہ کش لیکن باطنی طور پر دولت کا پجاری تھا۔ اس نے ایک مرتبہ اپنے دور کے ظالم حکمراں کو وعظ و نصیحت کی۔ حکمراں نے کچھ رقم زاہد کو دی جو اس نے بلا توقف قبول کر لی۔ ظالم فرمانروا بولا:’’حضرت! ہم سب شکاری ہیں، بس جال ذرا مختلف ہیں۔‘‘