مئی کی 9 تاریخ کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو واقعات ہوئے وہ کوئی بھی عام سی سطح، سوچ اور معلومات رکھنے والا شخص توقع نہیں کر رہا تھا۔ یکایک احتجاج سے ایسا ہنگامہ برآمد ہوا کہ دیکھا نہ سنا۔ اس کے بعد حکومت اور پاک فوج نے ایک صفحے پر آتے ہوئے اور کامل یکسوئی کے ساتھ ملک بھر میں جو آپریشن لانچ کیا اور جس طرح مشتبہ بلوائیوں کی پکڑ دکڑ کا سلسلہ شروع کیا وہ بھی معمول کا نہیں تھا۔
خواتین اور میڈیا کے لوگ بھی نشان زد کر کے ان کے گرد دائرہ تنگ کیا گیا اور گرفتاری میں کسی رکھ رکھاؤ، دید لحاظ حتی کہ عایت یا روایت کی بھی پرواہ نہ کی گئی۔ گویا جس طرح کا اسلوب فوجی مراکز پر حملہ کے دوران دیکھنے کو ملا تھا اس کا بھر پور جواب دیا گیا اور اب تک جاری ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں نے احتجاج کی انتہا کر دی تھی۔ اب انہیں ملی اداروں، انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے بھی اسی طرح کے بھرپور جواب کا سامنا ہے۔ بلکہ کہیں گندم کے ساتھ گھن کے پسنے کی اطلاعات ہیں۔ اس پر ملک کے اندر سے تو نہ ہونے کے برابر البتہ بیرون ملک سے زیادہ ردعمل کا امکان ہے۔ ملک کے اندر سے ردعمل محدود ہونے کی وجوہ فطری ہیں۔ ایک یہ کہ فوجی مقامات کو نشانہ بنانا بجائے خود ہر کسی کے لیے ناقابل قبول بات تھی۔
پی ٹی آئی ایک عرصے سے ملک کے عمومی سیاسی کلچر سے الگ انداز سے اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہی تھی۔ ملک کی مجموعی سیاست شناخت کے بہت سارے پیوند پی ٹی آئی کی سیاست میں موجود تھے تاہم دعوی بالکل مختلف تھا۔ اسی دعوے کی وجہ سے بارہ تیرہ جماعتوں کا ایک حکمران اتحاد وجود میں آیا اور پھر پی ٹی آئی اکیلی نشانے پر آ گئی۔
ملک کی فوجی قیادت کے بارے میں گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جو بیانیہ چلا تھا وہ آج بھی دھیمے لہجے میں ہی سہی جاری ہے۔ اس کا رد عمل بھی لازمی تھا جو اب نظر آرہا ہے اور پی ٹی آئی کو تحلیل کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ درجنوں پی ٹی آئی رہنما گرفتاری کے بعد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ بہت سوں کے ابھی اعلانات باقی ہیں۔ پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
29 مئی 1988 کو جب جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو چلتا کیا تھا تو اس کے بعد جونیجو کے زیر قیادت مسلم لیگ بھی اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن گئی تھی۔ اتفاق سے اس وقت جونیجو کی مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ سے نواز لیگ نے ولادت پائی تھی۔ آج وہی مسلم لیگ نواز حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ سب سے آگے ہو کر پی ٹی آئی کی ممکنہ تحلیل اور ٹوٹ پھوٹ کی 'بینیفشری' ہے اور ہو گی۔
بلا شبہ پی پی پی اور جے یو آئی کے علاوہ بعض دوسری جماعتوں کا بھی پی ٹی آئی کی اس سیاسی و تنظیمی ٹوٹ پھوٹ سے حصہ ملے گا لیکن یہ حصہ ہو سکتا ہے مقابلتاً کم تر ہو۔ دوسرا فائدہ جو فوری طور پر فوج کے حصے میں آیا ہے۔ یہ بھی اس وقت فوج کی غیر معمولی ضرورت تھا۔ پچھلے سال فارغ ہونے والی فوجی قیادت نے فوج کو ایک مشکل صورت حال میں دھکیل دیا تھا۔ اس پر سیاسی متاثرین نے بھی خوب تیل پھینکا۔ آغاز تو میاں نواز شریف نے کیا تھا۔ مگر بعد ازاں عمران خان نے اسے جس طرح رگیدا اس کا بظاہر کوئی توڑ ممکن نہ ہو رہا تھا۔ اب وہ بھی ہو گیا ہے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ 9 مئی کو فوجی مراکز پر ملک کے طول و عرض میں جو بلوے ہوئے تھے ان کے شر سے ایک بڑا خیر بھی برآمد ہو گیا ہے۔ یہ خیر کب تک آگے بڑھتا رہتا ہے یا اسی کا تسلسل رہتا ہے یہ قابل غور اور اہم بات ہے۔ یقینا ایک اچانک واقعے کے نتیجے اور ثمرات کو دائمی شکل ملنا مشکل تر ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس وقت ملک میں ایک زلزلے کی سی حالت ہے۔ زلزلہ اور اس کے بعد ہر روز 'آفٹر شاکس' کا سلسلہ جاری ہے۔
بلا شبہ پی ٹی آئی کی تیز رفتار ٹوٹ پھوٹ کا رکنا اب آسان نہیں ہے۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ یہ ٹوٹ پھوٹ پی ٹی آئی تک محدود رہے گی یا اس کے اثرات پی ثی آئی سے باہر اور ملک کے اندر دوسری سطحوں اور جگہوں پر بھی ہونے کا خدشہ ہوگا۔ اگر ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل کا سلسلہ محدود نہیں رہتا اور ہر سیاسی شناخت اور فیصلے سے متعلق اہم افراد کو اس ٹوٹ پھوٹ کے نتائج کی کسی نہ حد تک لپیٹ میں آنا پڑتا ہے تو یہ قابل غور ہوگا کہ ایسی صورت میں حکمران اتحاد کس طرح یک جان اور یک قالب بن کر کھڑا رہتا ہے۔
کسی بھی نقصان کو مل کر روکنا اور کسی ممکنہ پھیلنے والی افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کو سنبھالنے کی کوشش بھی مل کر ہی کرنا پڑے گی۔ لیکن خدشہ ہے کہ جیسے ہی پی ٹی آئی کے 'کرش' ہو جانے کے بعد ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس میں میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کا آنے والے دنوں میں بیانیہ کافی اہم ہو گا کہ وہ اپنے پرانے زخموں کا انتقام لینے والے راستے پر تو نہیں چل پڑتے۔
عدلیہ کو اس سلسلے میں سب سے پہلے نشانہ بننا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اگر ایک بار عدلیہ پر وار کار گر ہوگیا تو پھر فتح مندی کے جذبے سے مالا مال قیادت رکنے کا نام نہیں لے گی۔ اس لے ایک طرف عدلیہ کی تقسیم ہو گی تو دوسری طرف تقسیم کو وسیع تر مقاصد کے لیے دور تک بھی پھیلائے جانے کا امکان خدشے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ وہی مرحلہ زیادہ خطرناک ہو گا۔ اس مرحلے میں کامیابی کا سہرا اپنے اپنےماتھے پر سجائے مختلف لوگ اپنی شہسواری کے جوہر دکھانے کے لیے میدان میں اتر سکتے ہیں۔
میڈیا کی کم مائیگی اور مسلسل کمزوری کا بھی فائدہ صرف طاقتور حلقوں کو ہو گا۔ سوشل میڈیا کی جان نکل چکی ہو گی اور یکطرفہ ٹریفک کے بعد پھر ایک اِزدِحام اور ہنگامے کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ آج جو سب اچھا کی رپورٹ ہے وہ برقرار رکھنا ایک چیلنج کے طور پر سامنے ہو گا۔ اللہ رحم کرے۔